Maktaba Wahhabi

528 - 699
﴿فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ﴾[النور:36] ’’ایسے گھروں میں جنھیں بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اﷲ نے اذن دیا ہے۔‘‘ اس آیت میں اگرچہ﴿تُرْفَعَ﴾کا ظاہری و حقیقی معنیٰ تو بلند کرنا ہی ہے،لیکن اس لفظ سے اس کا مجازی معنیٰ مراد لینا ضروری ہے اور﴿تُرْفَعَ﴾کا وہ مجازی معنیٰ ہے،مساجد کی تعظیم کرنا کہ اس میں کسی غیر اﷲ کا ذکر نہ ہو،انھیں ہر قسم کی ظاہری و باطنی نجاستوں اور غلاظتوں سے پاک صاف رکھا جائے اور ان میں شور و شغب کی آوازیں بلند نہ کی جائیں،بلکہ انھیں ایسے تمام امور سے بالا تر رکھا جائے۔ اس حدیث کی روشنی میں اس آیت کا یہی مجازی معنیٰ ہی متعین ہوتا ہے،ورنہ قرآن و سنت میں تصادم لازم آئے گا،جو درحقیقت ہوتا ہی نہیں،جیسا کہ اہلِ علم نے طے کیا ہے،جس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔پھر اونچی اونچی مساجد کی تعمیر انھیں مزخرف کرنے اور ان میں بیل بوٹے بنانے کا راستہ کھولتی ہے،لہٰذا انھیں اس انداز سے بنانے ہی کی ممانعت کر دی گئی ہے،تاکہ کسی فتنے کا خدشہ ہی نہ رہے۔مساجد کو نقش و نگار سے سجانا یہود و نصاریٰ کا فعل شمار کیا گیا ہے،جیسا کہ سنن ابو داود اور صحیح ابن حبان میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث کے آخر میں خود حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول موقوفاً مروی ہے،جسے بخاری شریف کے ایک ترجمۃ الباب میں امام بخاری نے تعلیقاً بیان کیا ہے،اس میں وہ فرماتے ہیں: {لَتُزَخْرِفُنَّھَا کَمَا زَخْرَفَتِ الْیَھُوْدُ وَالنَّصَارٰی}[1] ’’تم مساجد کو یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح خوبصورت و مزین کرو گے۔‘‘ اونچی اونچی مساجد کی تعمیر پہلے تزئین و زخرفہ کا سبب بنتی ہے،جسے یہود و نصاریٰ کا فعل قرار دیا گیا ہے،پھر یہ مساجد کی تزئین و تجمیل فخر و مباہات کا ذریعہ بن جاتی ہے،جس پر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وعید فرمائی ہے۔[2] فخر و مباہات: جب اونچی اونچی مساجد تعمیر کی جائیں گی تو ان پر نقش و نگار ہوگا،پھر ایک دوسرے کی دیکھا
Flag Counter