Maktaba Wahhabi

229 - 699
لیے نہیں‘‘ سے مراد یہ ہے کہ جب تذلل اور خشوع کا اظہار کرنا مقصود ہو(تب مکروہ نہیں)کیونکہ نماز میں خشوع ایک اچھا فعل ہے۔یہ خشوع اگرچہ دل کے افعال سے ہے،لیکن اس کے آثار و علامات کو ظاہر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ ایسے ہی دیوبندی مکتبِ فکر کے علما کی کتب میں سے ’’احسن الفتاویٰ‘‘ اور ’’شرح التنویر‘‘ میں بھی ننگے سر نماز کو جائز و درست قرار دیا گیا ہے،جنھیں ہمارے بھائی یا تو پڑھتے نہیں اور اگر پڑھتے ہیں تو بھول جاتے ہیں،یا پھر تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہیں۔وجہ چاہے کچھ بھی ہو،ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں،البتہ اپنی ذمے داری سے سبکدوش ہونے کے لیے ان کتابوں کے متعلقہ اقتباسات اور ایک دیوبندی عالم مولانا لدھیانوی کا فتویٰ بھی آپ کے گوش گزار کیے دیتے ہیں۔ ایک فتویٰ: دیوبندی مکتبِ فکر ہی کے ایک عالم مولانا لدھیانوی کا ایک فتویٰ روزنامہ ’’جنگ لاہور‘‘(بابت 30؍ اکتوبر 1986ء)میں شائع ہوا تھا،جس میں انھوں نے مساجد میں پائی جانے والی چٹائی وغیرہ کی ٹوپیوں کی قباحتوں کے تذکرے کے ساتھ ساتھ ننگے سر نماز کے جواز کا فتویٰ جاری کیا تھا،جس کا خلاصہ یہ ہے: پہلی بات: چٹائی کی ٹوپیاں پہننے والوں کی نماز نہیں ہوتی اور ایسی ٹوپیاں مسجد میں رکھنا جائز ہی نہیں ہے۔آگے اس کی وجوہات بیان کی ہیں،جن میں سے مختصراً ایک جگہ یہ ہے کہ ان ٹوپیوں سے مسجد کا احترام مجروح ہوتا ہے۔ دوسری بات: ٹوپیوں پر میل کی تہہ اور پسینے کی بدبو خلافِ زینت اور ناگوار ہوتی ہے۔ تیسری بات: ٹوپیوں کو مسجد میں رکھنے کے عدمِ جواز کی ایک اور دلیل موصوف نے یہ بھی ذکر کی ہے کہ ان ٹوپیوں کے مسجد میں رکھنے کی وجہ سے لوگ مسجد کو عبادت گاہ کے بجائے خیراتی اور رفاہی ادارہ سمجھنے لگتے ہیں،جو مسجد کے مقاصد کے خلاف ہے اور اس سے مسجد کی توہین ہوتی ہے۔
Flag Counter