Maktaba Wahhabi

260 - 699
’’یہ دو کپڑوں کا پتا دینے والے آثار(امہات المومنین رضی اللہ عنہما)کے آثار منافی بھی نہیں،بلکہ تین کپڑوں پر مشتمل لباس اس کی اکمل و افضل صورت پر محمول ہوگا۔‘‘[1] عورتوں کا پتلون پہننا: عورتوں کا پتلون پہننا نماز کے لیے ہو یا عام حالات میں،کسی بھی صورت میں ایسا لباس پہننا عورت کے لیے جائز نہیں،جو اتنا تنگ و چست ہو کہ وہ عورت کے جسم کے اعضا اور خصوصاً مفاتنِ جسم کی حد بندی کر کے اور انھیں الگ الگ کر کے ان کے حدودِ اربعہ کی چغلی کھائے۔اسی اصول کے پیش نظر اہلِ علم نے عورت کے لیے پتلون کا استعمال جائز قرار نہیں دیا،خصوصاً جبکہ اس میں مَردوں سے مشابہت پائی جاتی ہے،چناںچہ اس سلسلے میں خصوصی طور پر سعودی دارالافتاء سے صادر شدہ ایک فتوے کا اردو ترجمہ پیشِ خدمت ہے: ’’کسی عورت کے لیے جائز نہیں کہ وہ کوئی ایسا تنگ و چست لباس پہنے،جو اعضاے جسم کی حدود بندی کرنے والا ہو،کیونکہ یہ فتنے کا باعث ہے اور پتلون اکثر ایسی ہوتی ہے جو اپنے اندر اعضا کو بظاہر چھپا تو لیتی ہے لیکن ان کی حد بندی کر دیتی ہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عورت کا پتلون پہننا مَردوں سے ان کی مشابہت اختیار کرنے کے زمرے میں آئے،جبکہ مردوں سے مشابہت کرنے والی عورتوں پر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔‘‘[2] اسی سے ملتا جلتا فتویٰ ایک دوسرے معروف سعودی عالم شیخ ابن جبرین نے بھی دیا ہے۔[3] نماز میں چہرے اور ہاتھوں کا حکم: اب رہا مسئلہ نماز کے دوران میں عورت کے چہرے اور ہاتھوں کا تو ان دونوں اعضا کو ننگا رکھا جا سکتا ہے،خصوصاً جبکہ عورت اکیلی ہو یا شوہر و محارم یا کسی دوسری عورتوں کی موجودگی میں نماز پڑھے،اس پر استدلال سورۃ النور کی آیت کے بعض الفاظ سے کیا جاتا ہے،جس میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ
Flag Counter