Maktaba Wahhabi

130 - 699
ثَلَاثٍ،اَلثَّیِّبُ الزَّانِيْ،وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ،وَالمُفَارِقُ لِدِیْنِہٖ الْتَّارِکُ لِلْجَمَاعَۃِ}[1] ’’کسی مسلمان کا جو اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اﷲ کے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں اور میں اﷲ کا رسول ہوں،اس کا خون حلال نہیں ہے،سوائے تین صورتوں کے،کوئی شادی شدہ ہو کر زنا کرے،خون کے بدلے خون یا جان کے بدلے جان کا معاملہ ہو،یا پھر کوئی دینِ اسلام کو ترک کر کے مسلمانوں کی جماعت کو چھوڑ کر مرتد ہوجائے۔‘‘ مانعینِ قتل کا ان احادیث سے استدلال اس طرح ہے کہ ان احادیث میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اقرارِ توحید و رسالت کے بعد کسی کے مال اور خون کو صرف ان حالات میں حلال قرار دیا ہے جو ان احادیث میں مذکور ہیں اور نماز چونکہ دین کے عملی ارکان میں سے ہے،جیسے روزے،زکات اور حج ہیں،لہٰذا اس کے ترک پر کسی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ قائلینِ قتل کے دلائل: تارکِ نماز کے قتل کو واجب قرار دینے والوں کا استدلال ایک تو قرآنِ کریم سورۃ التوبہ سے ہے،جس میں ارشادِ الٰہی ہے: 1۔﴿فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْھُمْ وَخُذُوْھُمْ وَ احْصُرُوْھُمْ وَ اقْعُدُوْا لَھُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ﴾[التوبۃ:5] ’’پس مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور ان کو قید کر لو اور گھیر لو اور ان کی تاک میں ہر گھات کی جگہ بیٹھو،پھر اگر وہ(شرک و کفر سے)توبہ کر لیں اور نماز کو درستی سے پڑھنے لگیں اور زکات دیا کریں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دو(یعنی ان سے تعرض نہ کرو)۔‘‘ قائلینِ قتل کا اس آیت سے اس طرح استدلال ہے کہ اﷲ نے قتل کا حکم فرمایا ہے،ہاں اگر وہ توبہ کر کے نماز و زکات کے پابند ہوجائیں تو انھیں چھوڑ دیا جائے اور اگر وہ ایسا نہ کریں تو انھیں قتل کر
Flag Counter