Maktaba Wahhabi

346 - 699
رکھنے کے جائز ہونے کی رائے کو اختیار کیا ہے،جس پر ان کا تعاقب کرتے ہوئے ڈاکٹر فوزان نے ’’الإعلام‘‘ میں لکھا ہے: ’’چہرے کے سلسلے میں موصوف نے جو بحث لکھی ہے،اس میں ان سے کئی جگہ خطا سرزد ہوئی ہے اور ان میں سے پہلی یہ ہے کہ انھوں نے جو لکھا ہے کہ عورت کے لیے غیر مردوں کی موجودگی میں چہرے اور ہاتھوں کو ننگا رکھنا جائز ہے اور ان اعضا کے مقامِ ستر نہ ہونے کا اعتبار کرتے ہوئے جو کہا ہے کہ غیر مردوں کا عورت کے ان اعضا کو دیکھنا بھی جائز ہے،یہ کھلی خطا اور قطعاً باطل قول ہے۔ کتاب و سنت کے وہ صحیح آثار و نصوص اس قولِ جواز کی تردید کرتی ہیں،جن میں اس بات کی دلیل بھی موجود ہے کہ عورت کا چہرہ اور دونوں ہاتھ اور سارا جسم مقامِ ستر ہے اور تمام اعضا کا غیر محرم مردوں سے پردے میں رکھنا واجب ہے۔‘‘ پھر آگے موصوف نے وہ دلائل ذکر کیے ہیں،جنھیں ہم پہلے ہی آپ کے گوش گزار کر چکے ہیں۔[1] 15۔شیخ محمد علی صابونی رحمہ اللہ: شیخ محمد علی صابونی نے آیاتِ احکام کو ترتیب دے کر ان کی تفسیر ’’روائع البیان في تفسیر آیات الأحکام‘‘ کے عنوان سے کتاب لکھی ہے،جو دو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے،اس کی جلد دوم(ص:173)میں وہ لکھتے ہیں: ’’فتنہ و فساد اور بگاڑ کے سدِ باب کے لیے اسلام نے عورت پر حرام کیا ہے کہ وہ اپنے ستر میں سے غیر مردوں کے سامنے کسی بھی حصے کو ننگا کرے اور یہ بات کہاں تک معقول ہے کہ اسلام عورت کو بالوں اور پاؤں کو تو چھپانے کا حکم دے،لیکن اس بات کی اجازت دے دے کہ وہ اپنے چہرے اور ہاتھوں کو کھلا چھوڑ دے؟ بگاڑ زیادہ کس میں ہے چہرہ ننگا رکھنے میں یا کہ پاؤں ننگے رکھنے میں؟ جبکہ چہرہ ہی تو حسن و جمال کا اصل معیار،بگاڑ کا سر چشمہ اور خطرات کی آماجگاہ ہوتا ہے۔‘‘[2]
Flag Counter