Maktaba Wahhabi

461 - 699
کہ قبر چاہے ایک بھی کیوں نہ ہو،اس کے پاس نماز پڑھنا ٹھیک نہیں ہے اور لکھا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے عام اصحاب کے کلام میں یہ فرق نہیں ملتا کہ قبر ایک ہو یا تین،بلکہ ان کے کلام و تعلیل اور استدلال سے پتا چلتا ہے کہ قبر چاہے کہیں ایک ہی کیوں نہ ہو،وہاں نماز منع ہے اور یہی بات صحیح بھی ہے،کیونکہ مقبرہ یا قبرستان ہر اس جگہ کو کہا جائے گا جہاں کوئی دفن ہو۔قبرستان کوئی جمع کا صیغہ تو نہیں ہے۔(قبر کی جمع تو قبور یا مقابر ہے)آگے لکھتے ہیں کہ ہمارے اصحاب نے کہا ہے: ’’قبر کے ارد گرد جو بھی جگہ ہو،جس پر مقبرے کا اطلاق ہوتا ہو،اس ساری جگہ میں کہیں بھی نماز نہیں پڑھی جائے گی۔‘‘ اس سے پتا چلتا ہے کہ صرف قبر ہی نہیں،بلکہ اس کے متعلق صحن وغیرہ میں بھی نماز کی ممانعت کا وہی حکم ہے جو قبر کا ہے۔امام آمدی وغیرہ اہلِ علم نے کہا ہے کہ ایسی مسجد میں بھی نماز جائز نہیں جس کا قبلہ قبر کی طرف ہو،یہاں تک کہ مقبرے اور مسجد کی دیوار کے درمیان کوئی دوسری چیز حائل نہ ہو۔بعض اہلِ علم نے کہا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ کا یہی منصوص قول ہے۔[1] بلا استقبال بھی کراہت: یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رکھیں کہ قبروں پر بنائی گئی مساجد میں نماز صرف اسی وقت مکروہ نہیں جب بوقتِ نماز قبر کی طرف منہ ہو،بلکہ ایسی مسجد میں بہر صورت نماز مکروہ ہے،چاہے قبر سامنے ہو یا پیچھے یا قبر دائیں ہو یا بائیں۔جب قبر سامنے قبلے کی جانب پڑتی ہو تو اس وقت کراہت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے،کیونکہ اس طرح نمازی سے دو مخالفِ شرع باتیں سرزد ہوتی ہیں:پہلی قبر پر بنائی گئی مسجد میں نماز اور دوسری قبر کی طرف منہ کر کے نماز،جو صحیح نص کی رُو سے ویسے ہی منع ہے،چاہے مسجد میں ہو یامسجد کی کسی اور جگہ پر ہو،جیسا کہ صحیح مسلم،سنن ابو داود،ترمذی،نسائی،بیہقی،طحاوی،مسند احمد اور تاریخ ابن عساکر کی حدیث گزر چکی ہے،جس میں حضرت ابو مرثد غنوی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: {لَا تَجْلِسُوْا عَلٰی الْقُبُوْرِ،وَلَا تُصَلُّوْا إِلَیْھَا}[2]
Flag Counter