Maktaba Wahhabi

711 - 699
مسجد عثمان غنی رضی اللہ عنہ،مسجد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ،مسجد سلمان الفارسی رضی اللہ عنہ،مسجد صہیب الرومی رضی اللہ عنہ یا کسی بھی دوسرے صحابی کی طرف منسوب کریں جو ’’رضي اللّٰه عنہم ورضوا عنہ‘‘ کا مقام پا گئے ہیں یا پھر انہی کے تربیت یافتہ تابعین اور ان کی روایات کے امین ائمہ حدیث اور ائمہ مجتہدین کی طرف منسوب کریں،جو نورِ علم و ہدایت کے مینار تھے،اس طرح ان کی دینی خدمات کا اعتراف اور ان کی رفعتوں کو خراجِ تحسین پیش ہوجائے گا اور مسجد کا نام بھی ہوجائے گا،البتہ کسی خاندان و قبیلہ اور عام شخص کی طرف یہ اضافت و انتساب بھی جائز ہے،لیکن بہتر طریقہ پہلا ہی ہے۔ اوقاتِ نماز کے علاوہ مساجد کے دروازے بند کرنا: احکام و آدابِ مسجد میں سے ہی ایک یہ بھی ہے کہ آیا اوقاتِ نماز کے علاوہ دیگر اوقات میں مساجد کے دروازے بند کرنا جائز ہے یانھیں؟ اس سلسلے میں یہ بات تو واضح طور پر کتبِ حدیث میں موجود ہے کہ بوقتِ تعمیر مسجد کے دروازوں کی جگہ رکھنے کے ساتھ ہی وہاں کے دروازے بھی لگائے جا سکتے ہیں،حتیٰ کہ ان دروازوں کی کنڈیوں وغیرہ کا تذکرہ بھی ملتا ہے،اگرچہ وہ اشارتاً ہے،صراحتاً نہیں،چنانچہ صحیح بخاری کے ایک ترجمۃ الباب میں حضرت ابن جریج رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ حضرت ابن ابی ملیکہ رحمہ اللہ نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا:اے عبدالملک! ’’لَوْ رَأَیْتَ مَسَاجِدَ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبْوَابِھَا‘‘[1] ’’اگر تم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بنائی ہوئی مساجد دیکھ لیتے(تو تمھیں پتا چلتا کہ)ان کی اور اُن کے دروازوں کی نظافت و نفاست کس درجہ تک پہنچی ہوئی تھی۔‘‘ عام مساجد تو کجا خاص بیت اﷲ شریف یا خانہ کعبہ کے دروازے کا ذکر بھی ملتا ہے،جیسا کہ خانہ کعبہ کے اندر نماز کے جواز کے سلسلے میں بھی حدیث ذکر کی جا چکی ہے،جو صحیح بخاری و مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے،جس میں وہ بیان فرماتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،حضرت اسامہ بن زید،حضرت بلال اور حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم بیت اﷲ شریف میں داخل ہوگئے۔ {فَأَغْلَقُوْا عَلَیْھِمُ الْبَابَ فَلَمَّا فَتَحُوْا کُنْتُ أَوَّلَ مَنْ وَلَجَ}[2]
Flag Counter