Maktaba Wahhabi

225 - 699
البتہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عمامہ باندھا کرتے تھے۔‘‘ ان روایات کے موضوع و باطل ہونے میں اس لیے تردّد نہیں رہنا چاہیے کہ ان میں عمامہ والی نماز کا ثواب اتنا ہی بتایا گیا ہے،جتنا اکیلے نماز پڑھنے والی کی نسبت باجماعت نماز پڑھنے والے کا ثواب ہے،جبکہ عمامہ باندھنا اور جماعت میں شامل ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے،کیونکہ عمامہ باندھنا زیادہ سے زیادہ مستحب ہے،بلکہ راجح تر بات یہ ہے کہ یہ سنن عادت میں سے ہے،سنن عبادت میں سے نہیں،اگرچہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی نیت سے عادتاً پہننے پر ثواب بھی ہے،مگر نماز باجماعت سے اس کا کیا مقابلہ ہے؟ وہ تو کم از کم سنت مؤکدہ کا درجہ رکھتی ہے،بلکہ بعض اہلِ علم نے تو جماعت کو نماز کا رکن و شرط بنا دیا ہے کہ اس کے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی،اگرچہ صحیح و راجح تر مسلک یہ ہے کہ جماعت فرض و واجب ہے،جسے ترک کرنے سے نماز تو ہوجائے گی،لیکن وہ ترکِ جماعت پر سخت گناہگار بھی ہوگا،جس کی تفصیل ہم ذکر کر چکے ہیں۔ ایسے میں یہ کیسے ممکن ہے کہ شارع حکیم و علیم محض عمامہ باندھ کر پڑھی گئی نماز کے اجر و ثواب کو جماعت کے ساتھ پڑھی گئی نماز کے برابر بلکہ اس سے بھی زیادہ کر دے،جیسا کہ ان روایات میں وارد ہوا ہے۔غالباً حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی کے پیشِ نظر اس روایت کو من گھڑت قرار دیا ہے۔[1] ان باطل روایات کے اثرات: ان ضعیف و باطل،ناقابلِ حجت اور ناقابلِ اعتبار روایات ہی کا نتیجہ ہے کہ آج ہمارے بعض بھائیوں نے خصوصاً پاک و ہند میں ٹوپی یا عمامے کو وہ مقام دے دیا ہے کہ قمیص کا کالر تک اٹھا کر سر پر رکھ لیتے ہیں،کوئی ننگے سر نماز پڑھ رہا ہو تو اسے کھا جانے والی نظروں سے گھورا جاتا ہے،یا پھر کوئی نہ کوئی از راہِ کرم بوسیدہ ٹوپی اس کے سر پر رکھ دیتے ہیں،جسے قطعاً زینت کا باعث قرار نہیں دیا جاسکتا۔بلکہ ہماری مسجد میں دستیاب ہونے والی ٹوپیاں زینت تو کجا اُلٹا بدصورتی،بد ذوقی اور سوے منظر کا سبب بنتی ہیں۔ اول تو ان روایات کی حیثیت معلوم ہونے سے پتا چل گیا کہ ٹوپی یا عمامہ اور پگڑی و دستار کی کوئی فضیلت ثابت نہیں اور اگر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دستار و عمامہ باندھنے کے عمل سے اس کی فضیلت
Flag Counter