Maktaba Wahhabi

554 - 699
حالانکہ ان دو جگہوں پر تھوکنے کے جواز کا ذکر بھی انہی احادیث میں مذکور ہے،جن میں قبلہ رو تھوکنے کی ممانعت کے سبب یعنی قبلہ رو اور تھوکنے والے کے مابین اﷲ تعالیٰ کے ہونے کا بھی ہوسکتا ہے۔ ان احادیث سے اﷲ تعالیٰ کے مستوی علیٰ العرش ہونے کی نفی بھی نہیں ہوتی،بلکہ ان احادیث میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ بندہ جدھر بھی منہ کرے،وہ اﷲ کے روبرو ہی رہتا ہے،بلکہ یہ اس کی تمام مخلوقات کے لیے عام ہے۔اسے آسانی کے ساتھ اس مثال سے سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک دائرہ بنایا جائے تو اس کے مرکز سے نکلنے والے ہر خط کو جہاں سے بھی نکالیں وہ دائرے یا محیط کے روبرو ہی ہوگا۔اﷲ تعالیٰ کا معاملہ تو اس سے بھی کہیں واضح تر ہے کہ وہ تو ہر چیز کو محیط ہے،لہٰذا اس کی تمام مخلوقات گویا اس کے روبرو ہوتی ہیں،لہٰذا یہ تمام اشکالات و اعتراضات باطل ٹھہرتے ہیں اور قبلہ رو تھوکنے کی ممانعت احترامِ قبلہ کے لیے ہے۔ اس موضوع کی تفصیل شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتب خصوصاً ’’الحمویۃ‘‘ اور ’’الواسطیۃ‘‘ میں دیکھی جا سکتی ہے،ایسے ہی فتح الباری(1/508)میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اﷲ تعالیٰ کے ہر جگہ پر ہونے کا رد کیا ہے۔دورِ حاضر کے معروف عالم شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے حاشیہ فتح الباری میں اﷲ کے مستوی علیٰ العرش ہونے کی بھر پور تائید کی ہے اور اسی بات کو محدّثِ عصر شیخ البانی نے صحیح الترغیب والترہیب(1/116)کے حاشیے میں بڑے عمدہ طریقے سے سمجھایا ہے اور یہ بھی تب ہے،جب اﷲ کے روبرو ہونے کا کہا جائے،ورنہ تو اس کی ضرورت ہی نہیں رہتی،جیسا کہ امام خطابی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس کے سامنے اس کے پروردگار ہونے والی عبارت میں دراصل حذف ہے۔اصل عبارت کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اﷲ کی عظمت یا اس کا ثواب سامنے ہوتا ہے۔علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ یہ کلام مجازاً کعبہ شریف کی عظمتِ شان کو بیان کرنے کے لیے صادر ہوا ہے۔[1] اگر ان میں سے کسی مفہوم کو لے لیا جائے تو کوئی اعتراض رہتا ہے نہ اشکال۔ تیسرا اشکال یا سوال: اب آخر میں ایک تیسرا سوال یہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ بعض احادیث میں جو آیا ہے کہ نماز کے دوران میں قبلہ رو اور دائیں جانب مت تھوکو،بلکہ بائیں جانب پاؤں کے نیچے تھوکو،لہٰذا اگر بائیں جانب یا پاؤں کے نیچے تھوکا جائے تو یہ مسجد میں تھوکنا بھی ہوسکتا ہے،جو ناجائز اور آدابِ مسجد کے خلاف ہے۔
Flag Counter