Maktaba Wahhabi

274 - 699
نماز سے باہر پاؤں کا حکم: ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا،اسی طرح ابن عمر و ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے مروی سابقہ احادیث اس بات کا پتا دیتی ہیں کہ نماز سے باہر عام حالت میں اور غیر محرم لوگوں کے سامنے عورت کے پاؤں بھی مقامِ ستر ہیں،اسی طرح اس بات کا پتا قرآنِ کریم کی آیت سے بھی چلتا ہے،جیسا کہ سورۃ النور میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَلاَ یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ﴾[النور:31] ’’اور وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت انھوں نے چھپا رکھی ہو،اس کا لوگوں کو علم ہوجائے۔‘‘ اس ارشادِ الٰہی کے ان الفاظ سے معلوم ہوا کہ عورت کے لیے پاؤں کو ڈھانپ کر رکھنا بھی ضروری ہے،اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر زمین پر پاؤں مارے بغیر چلتے وقت عورت اپنے پاؤں کی زینت پازیب وغیرہ ظاہر کر سکتی تھی،لیکن ایسا نہیں،بلکہ شرعاً پاؤں بھی مقامِ ستر ہیں اور عہدِ رسالت میں ایسا تو سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ عورتیں حکمِ شریعت سے سرتابی کرتی ہوں،لہٰذا اپنے پاؤں کی زینت کے اظہار کا یہی ایک طریقہ تھا کہ پاؤں کو زور سے زمین پر مار کر پازیب کا پتا دیا جائے تو اسلام نے اس انداز سے چلنے کی بھی ممانعت کر دی۔ علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے ’’المحلّٰی‘‘(2/216)میں اس آیت کے انہی الفاظ سے استدلال کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’ھٰذَا نَصٌّ عَلٰی أَنَّ الرِّجْلَیْنِ وَالسَّاقَیْنِ مِمَّا یُخْفٰی،وَلَا یَحِلُّ إِبْدَاؤُہٗ‘‘[1] ’’یہ آیت اس بات پر نص ہے کہ(عورت کے)دونوں پاؤں اور پنڈلیاں ایسے اعضا میں سے ہیں،جن کا ڈھانپنا ضروری ہے اور ظاہر کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی اپنے رسالے ’’حجاب المرأۃ‘‘(ص:24)میں لکھا ہے کہ صحیح تر قول کے مطابق عورت چہرے،ہاتھوں اور پاؤں کو اجنبی مردوں کے سامنے ننگا نہیں کر سکتی۔
Flag Counter