Maktaba Wahhabi

514 - 699
صحیح مسلم میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے نماز کی نفی روایت کی ہے،جبکہ مسند احمد اور بعض دیگر کتبِ حدیث میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے نماز کا اثبات روایت کیا ہے تو اس طرح خود حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے نماز کی نفی و اثبات کی روایات باہم متعارض ہوگئیں،لہٰذا حضرت بلال رضی اللہ عنہ والی بات کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی،وہی راجح اور زیادہ صحیح ہوگی،کیونکہ وہ مثبت ہے اور دوسروں کی بات منفی ہے(اور مثبت منفی پر مقدّ م ہوتی ہے)دوسرے اس لیے بھی کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ والی روایت میں اثبات پر کوئی تعارض و اختلاف نہیں ہے،جبکہ نفی کرنے والوں کی روایات میں باہم نفی و اثبات کا تعارض و اختلاف بھی موجود ہے۔[1] امام نووی رحمہ اللہ کا حل: بعض شارحینِ حدیث نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے نماز کو ثابت کرنے اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے نماز کی نفی کرنے والی روایات میں کئی دیگر طریقوں سے مطابقت پیدا کی ہے۔ان میں سے امام نووی رحمہ اللہ اور بعض دیگر شُراحِ حدیث نے کہا ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی روایتِ اثبات اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی روایتِ نفی میں اس طرح بھی مطابقت ممکن ہے کہ جب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو شروع میں دعا کرنے لگ گئے اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعا کرتے ہوئے دیکھا۔یہ دیکھ کر حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ بھی دعا میں مشغول ہوگئے۔وہ خانہ کعبہ میں ایک طرف تھے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوسری طرف۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا سے فارغ ہو کر نماز پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیا،لیکن حضرت اسامہ ذرا دور ہونے اور دعا میں مشغول ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے نہ دیکھ سکے،یہ اس لیے بھی ممکن ہے کہ دروازہ بند تھا،جس سے اندر کافی اندھیرا ہوگیا ہوگا اور اس تاریکی کے ساتھ ہی اس بات کا احتمال مستزاد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ستون کی اوٹ میں ہونے کی وجہ سے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے اوجھل ہوگئے ہوں،لہٰذا انھوں نے اپنے خیال کے مطابق نماز کی نفی کر دی۔[2]
Flag Counter