Maktaba Wahhabi

293 - 699
پہلی آیت،دوسرا جز: پھر اسی سورۃ النور کی آیت(31)ہی کے دوسرے الفاظ میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَلاَ یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِینَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ﴾[النور:31] ’’اور عورتیں اپنے پاؤں زمین پر مارتے ہوئے نہ چلیں تاکہ وہ زینت جو وہ چھپائے ہوئے ہیں اس کا لوگوں کو علم ہوسکے۔‘‘ ان الفاظ کی تفسیر بیان کرتے ہوئے علامہ عبدالقادر حبیب اﷲ سندھی نے اپنے رسالے ’’اللباب‘‘ میں لکھا ہے: ’’ان الفاظ میں اﷲ تعالیٰ نے عورتوں کو زمین پر پاؤں مار کر چلنے سے بڑی شدت کے ساتھ روکا ہے،تاکہ ان کے پاؤں کے زیوارت پازیب وغیرہ کی آواز نہ سنی جا سکے۔یہ حکم ان کے شرف کے تحفّظ،شرّ کا دروازہ بند کرنے اور فحاشی کے وقوع کو روکنے کے لیے دیا گیا ہے،جو عفت و عصمت کے تحفظ کی ایک انتہا ہے۔جب اس آیتِ کریمہ کی رُو سے عورت کی پازیب کی جھنکار بھی ممنوع ہے تو پھر کسی مسلمان کے لیے یہ کیسے روا ہو سکتا ہے کہ ضعیف و منکر اور غیر صحیح اسانید پر مشتمل روایات کا سہارا لیتے ہوئے یہ کہے کہ عورت کا چہرہ اور ہاتھ مقامِ ستر اور زینت نہیں ہیں،لہٰذا انھیں وہ غیر محرم لوگوں کے سامنے ننگا کر سکتی ہے؟‘‘[1] نیز شیخ عثیمین لکھتے ہیں: ’’مرد کے مبتلاے فتنہ ہونے کے خوف کی بنا پر پازیب کی جھنکار کو ممنوع کیا گیا ہے تو چہرے کو ننگا رکھنے کی اجازت کیسے ہوسکتی ہے؟ ان ہر دو میں سے از روے فتنہ سامانی کون سی چیز بڑی ہے؟ ایک طرف پائل یا پازیب کی جھنکار ہے مگر عورت پردے میں ہے،نہیں معلوم بوڑھی ہے،جوان ہے،حسین و جمیل ہے یا قبیح المنظر اور دوسری طرف ایک عورت ننگے منہ ہے،چہرہ فطرتی حسن و جمال کے ساتھ ساتھ مصنوعی زیب و زینت کی بدولت فتنہ بردوش ہے،خواہشِ نفس عطا کی گئی ہے،ہر انسان بہ آسانی اندازہ کر سکتا ہے کہ ان ہر دو میں سے کون سا انداز زیادہ فتنہ انگیز اور بلا خیز ہے۔‘‘[2]
Flag Counter