Maktaba Wahhabi

579 - 699
حدیث میں مذکور وعید کا مستحق ہوگا،اس سلسلے میں یہ بھی کوئی فرق نہیں کہ اس جھوٹ کا تعلق احکام سے ہے یا ترغیب و ترہیب اور مواعظ سے،کیونکہ ہر مسئلے میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جھوٹی حدیث منسوب کرنا حرام ہے۔تمام دانشمندوں کا اتفاق ہے کہ کسی بھی شخص کی طرف جھوٹ بات کا انتساب حرام ہے تو پھر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی بات کو غلط طور پر منسوب کرنا کتنا بڑا گناہ ہوگا؟‘‘[1] مساجد کے قصہ خواں: حقیقت تو یہ ہے کہ وہ لوگ جو مساجد میں برسرِ منبر موضوع و من گھڑت اور باطل روایات و حکایات بیان کرنے سے نہیں چوکتے اور سمجھتے ہیں کہ انہی کہانیوں سے تو خطبے یا تقریر میں رنگ آتا ہے اور پھر وہ صحیح و غیر صحیح میں تمیز کیے بغیر اپنی لچھے دار تقریروں میں یہ قصے کہانیاں بیان کرتے رہتے ہیں۔انھیں خطبا و واعظین کے بجائے مساجد کے قصہ خوان کہنا چاہیے،جنھیں امام غزالی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’إحیاء علوم الدین‘‘ میں یہی نام دیا ہے۔انھوں نے مساجد کے منکرات یعنی مساجد میں مروج غلط امور کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’مساجد کے منکرات میں سے قصہ خواں اور واعظین کا وہ کلام بھی ہے،جو بدعت پر مشتمل ہوتا ہے۔اگر کوئی قصہ خواں جھوٹے واقعات بیان کرے تو وہ فاسق ہے۔اسے ٹوکنا ضروری ہے اور اگر کوئی واعظ بدعتی ہو تو اس کے ساتھ بھی یہی معاملہ کرنا چاہیے۔‘‘[2] اس ساری تفصیل سے معلوم ہوا کہ مساجد میں صرف غلط یا فضول قسم کی شعر گوئی ہی ممنوع نہیں بلکہ ایسی وعظ گوئی یا قصہ خوانی بھی ممنوع ہے،جس کی بنیاد ہی ضعیف و موضوع یا کمزور اسناد والی اور من گھڑت و جعلی روایات پر رکھی گئی ہو،ہاں اگر لا علمی کی وجہ سے ایسا کچھ ہوجائے تو الگ بات ہے،ویسے مسجد میں کچھ کہنے سے پہلے اپنے آپ کو اس کا اہل بنانا چاہیے اور جو کچھ کہنے کا خیال ہو،اس کی تحقیق کر لینی چاہیے،تاکہ اس وعید سے بچ سکیں۔ غرض کہ ان تمام امور سے مساجد جیسے مقدس مقامات کو محفوظ رکھنا چاہیے اور متولیانِ مساجد کا
Flag Counter