Maktaba Wahhabi

317 - 699
’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ احرام کی حالت میں عورت نہ تو نقاب ڈالے اور نہ دستانے پہنے۔‘‘ اس طرح نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے چہرے اور ہاتھوں کو ان کے سائز کے مطابق تیار کیے گئے کپڑے کے استعمال کی ممانعت میں برابر قرار دے دیا،لیکن اسے چہرے کے ڈھانپنے(پردہ کرنے)سے قطعاً نہیں روکا،اور نہ اسے ننگا رکھنے کا حکم فرمایا ہے۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہما اس امت کی تمام عورتوں کی نسبت زیادہ اس مسئلے کو جاننے والی ہیں،وہ ان کے پاس مردوں کے قافلے گزرنے کے وقت اپنے چہروں پر کپڑا ڈال لیا کرتی تھیں اور جب وہ گزر جاتے تو چہرے ننگے کر لیتی تھیں۔ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی دوسری کتاب ’’بدائع الفوائد‘‘ میں احرام کی حالت میں عورت کے اپنا چہرہ ننگا رکھنے سے متعلق ایک سوال اور اس پر ابن عقیل کا جواب ذکر کیا ہے اور پھر اس جواب پر تعاقب کرتے ہوئے لکھا ہے: اس سوال اور اس پر ایسے ہی جواب کا سبب دراصل یہ ہے کہ احرام کی حالت میں عورت کے بارے میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے متعلق بعض امور ان لوگوں پر مخفی ہیں،جبکہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں یا کسی دوسرے موقع کے لیے عورت کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ چہرہ ننگا رکھے،بلکہ جو نص اس سلسلے میں وارد ہوئی ہے،وہ صرف اس بات کے ساتھ خاص ہے کہ عورت حالتِ احرام میں نقاب نہ ڈالے،اور ایسے ہی اس نص میں دستانے نہ پہننے کا حکم آیا ہے۔‘‘[1] اندازہ فرمائیں کہ کتاب و سنت کی تعلیمات میں گہرا درک رکھنے والے،اجماعِ امت کے مواقع کو بخوبی جاننے والے اور علماے اصول کی تفریعات کے متبحر عالم علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کے الفاظ ’’لَمْ یُشْرَعْ لَھَا کَشْفُ الْوَجْہِ فِي الإِحْرَامِ وَلَا غَیْرِہٖ‘‘ کتنے واضح ہیں کہ عورت کے لیے احرام کی حالت میں بھی چہرے کو ننگا رکھنا جائز نہیں کیا گیا،چہ جائیکہ کسی دوسرے موقع پر ہو؟ پانچویں حدیث: احکامِ پردہ میں چہرے کے بھی شامل ہونے پر جس پانچویں حدیث سے استدلال کیا گیا ہے،وہ سنن ابو داود،ابن ماجہ،صحیح ابن خزیمہ،سنن دارقطنی اور مسند احمد میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا
Flag Counter