Maktaba Wahhabi

635 - 699
لیکن اگر بیٹھنے کا خیال نہیں تو رعایت ہوسکتی ہے،البتہ جو مسجد میں جاکر کسی وجہ سے کچھ بیٹھنا بھی چاہے تو افضل و احوط یہی ہے کہ وہ وضو کر کے مسجد میں داخل ہو،اس طرح مسجد میں بے وضو داخل ہونے اور مسجد میں داخل ہو کر بے وضو ہوجانے کے مابین کچھ فرق بھی ہو جاتا ہے۔[1] مسجد میں غیر مسلم(مشرک)کا داخل ہونا: یہاں ایک اور بات بھی ذکر کرتے جائیں کہ ہمارے بعض لوگ کسی غیر مسلم کو کہیں کسی مسجد میں دیکھ لیں تو وہ سخت سیخ پا ہو جاتے اور سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی انہونی بات ہوگئی ہے اور ان کی یہ غیرت دراصل مسئلہ سے عدمِ واقفیت کا نتیجہ ہے،ورنہ حقیقت یہ ہے کہ کسی غیر مسلم و مشرک یعنی ہندو،سکھ اور عیسائی کے مسجد میں داخل ہوجانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا،کیونکہ غیر مسلم کو خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مسجد میں داخل کرنا ثابت ہے۔رہی یہ بات کہ یہ لوگ نجس ہوتے ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں،لیکن ان کی نجاست حکمی ہوتی ہے،حسی نہیں،پھر ان کے اہلِ کتاب یا غیر اہلِ کتاب ہونے کا بھی کوئی فرق نہیں،کیونکہ ہر دو کا داخلہ ثابت ہے۔ غرض کہ اس سلسلے میں جمہور اہلِ علم کا مسلک تو یہی ہے جو ابھی ہم نے ذکر کیا ہے،البتہ ائمہ و فقہا کے اقوال میں تھوڑا تھوڑا فرق ہے،مثلاً احناف تو مشرکین یا کفار کے مسجد میں داخلے کے مطلقاً جواز کے قائل ہیں۔امام مالک،فقہاے مالکیہ،بعض اہلِ ظاہر اور شوافع میں سے مزنی مطلقاً ممانعت کے قائل ہیں۔عام شافعیہ مسجدِ حرام(مکہ مکرمہ)اور دیگر مساجد کے مابین فرق کرتے ہیں کہ اس میں تو کوئی غیر مسلم داخل نہیں ہوسکتا،دوسری مساجد میں داخل ہوجائے تو کوئی حرج نہیں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کتابی و غیر کتابی میں فرق ہونا چاہیے کہ جو اہلِ کتاب میں سے ہو،اس کے داخلے میں مضائقہ نہیں اور غیر اہلِ کتاب کا داخلہ جائز نہیں ہے۔[2] جبکہ جواز و عدمِ جواز اور قائلینِ فرق و عدمِ فرق والے سبھی اہلِ علم کے پاس دلائل بھی ہیں۔جن کا جائزہ لیا جائے تو جمہور اہلِ علم والا پہلا مسلک یعنی جواز ہی ثابت ہوتا ہے،چنانچہ اس سلسلے میں اختلافِ رائے کا بنیادی سبب غیر مسلم کی نجاستِ حکمی یا نجاستِ حسی میں اختلاف ہے۔یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم کے مسجد میں داخل ہونے کے جواز اور عدمِ جواز کے بارے میں ائمہ و فقہا کی مختلف آرا ہیں۔
Flag Counter