Maktaba Wahhabi

556 - 699
ویسے بھی نماز میں اور مسجد کے اندر تھوکنے کی حماقت تو کوئی شاذ ہی کرتا ہو گا،کیونکہ اب ایسا دور کہاں؟ البتہ عام حالات میں قبلہ رو تھوکنے یا دائیں جانب تھوکنے کی بات ہے تو وہ لا علمی کی وجہ سے عام ہے اور اس کے بارے میں متنبہ کرنا ہماری اصل غرض ہے۔لگے ہاتھوں ہم نے یہ قلیل الوقوع مسئلہ بھی بیان کر دیا ہے،لہٰذا اصولی طور پر اور ضروری حد تک یہ موضوع تو مکمل ہوگیا ہے۔ نیکی قبول۔۔۔گناہ معاف: یہاں ہم ایک بات کی وضاحت کر دینا مناسب سمجھتے ہیں کہ اسلام وہ دین کامل اور آسان دین ہے کہ اس کے احکام فطرتِ انسانی کے عین موافق ہیں اور کوئی ایسا حکم نہیں دیا گیا،جو انسانی طاقت سے باہر ہو،جیسا کہ سورۃ البقرہ میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا﴾[البقرۃ:286] ’’اﷲ تعالیٰ کسی شخص پر بوجھ نہیں ڈالتا،مگر جتنا کہ وہ اٹھا سکے۔‘‘ اس آیت کی رو سے پہلی بات تو یہ کہ اسلام کا کوئی حکم ایسا نہیں جس پر عمل کرنا ناممکن ہو،البتہ اتنا ہے کہ بعض احکام اگرچہ معمولی سے ہوتے ہیں،لیکن وہ انسان سے توجہ چاہتے ہیں،جیسے یہی قبلہ رو تھوکنے کی ممانعت کا حکم ہے کہ یہ انتہائی آسان سی بات ہے کہ اگر لا ابالی پن یا بے پروائی نہ برتی جائے تو اس میں کوئی مشکل ہی پیش نہیں آتی۔مومن سے یہی توقع رکھی جاتی ہے کہ اس کا کوئی فعل ایسا نہیں ہوتا جو بے پروائی میں اس سے سرزد ہو،بلکہ وہ ہر قدم پھونک کر رکھتا ہے کہ مبادا کہیں غلطی یا سنت کی خلاف ورزی کا ارتکاب ہوجائے،لیکن اس تمام تر حزم و احتیاط کے باوجود بھی مومن سے خطا اور غلطی کا ارتکاب ہوجانا بشری تقاضا ہے،کیونکہ عصمت صرف اﷲ تعالیٰ کا خاصا ہے۔ یا پھر وہ اپنی عنایتِ خاصہ سے اپنے انبیا کو معصومیت کا شرف عطا کرتا ہے،کیونکہ انھوں نے امتوں کی رہبری کا منصب سنبھالنا ہوتا ہے۔انبیا و رسلo کے سوا کوئی انسانی طبقہ معصوم نہیں ہے،نہ صحابہ رضی اللہ عنہم،نہ تابعین رحمہم اللہ،نہ ائمہ،نہ اولیا،بلکہ ہر کسی سے خطا کا سرزد ہوجانا ممکن ہے اور جب خطا کا صدور ممکن ہے تو اﷲ نے ہمیں اس عظیم نعمت سے بھی سرفراز رکھا ہے کہ ہماری خطائیں مختلف طریقوں سے معاف کرتا ہے،حتیٰ کہ نیک کام کرنے سے خطا معاف ہوجاتی ہے،جیسا کہ خود ربِ کائنات کا سورت ہود میں ارشادِ گرامی ہے:
Flag Counter