Maktaba Wahhabi

239 - 699
﴿یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ﴾[الأعراف:31] ’’اے آدم کی اولاد! ہر نماز کے وقت اپنی زینت اختیار کرو۔‘‘ نماز کے وقت زینت اختیار کرنے کی ترغیب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی دلائی ہے،جیسا کہ طبرانی اوسط،بیہقی اور معانی الآثار کے حوالے سے ہم پہلے بھی حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث ذکر کر چکے ہیں،جس میں ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: {إِذَا صَلّٰی أَحَدُکُمْ فَلْیَلْبَسْ ثَوْبَیْہِ فَإِنَّ اللّٰہَ أَحَقُّ مَنْ تُزَیَّنُ لَہٗ}[1] ’’تم میں سے جب کوئی نماز پڑھے تو اپنے دونوں کپڑے پہنے،بے شک اﷲ تعالیٰ اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کے لیے زینت اختیار کی جائے۔‘‘ اس آیت و حدیث اور سلف صالحین کے عرف عام میں ننگے سر نہ پھرنے سے عمامہ و ٹوپی کی فضیلت یا کم از کم ننگے سر نماز کی نسبت اس کی افضلیت کا پتا چلتا ہے اور یہ عام دلیل ہے،جب کہ عمامے کی فضیلت والی خاص احادیث ہم ذکر کر چکے ہیں کہ وہ سب واقعی موضوع اور من گھڑت ہیں۔ 3 ننگے سر نماز کے دلائل کی استنادی حیثیت: فقہ السنۃ کے مولف سید سابق کے اقتباس پر وارد ہونے والے مؤاخذات و اعتراضات میں سے دو ذکر کیے گئے ہیں،جبکہ اس اقتباس میں ایک تیسری بات بھی مذکور ہے کہ موصوف نے ننگے سر نماز کے جواز کی دلیل کے طور پر(تاریخ دمشق)ابن عساکر کے حوالے سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی بیان کردہ روایت پیش کی ہے،جس میں وہ بتاتے ہیں: {إِنَّ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ رُبَمَا نَزَعَ قَلَنْسُوَتَہٗ فَجَعَلَھَا سُتْرَۃً بَیْنَ یَدَیْہِ}[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ اپنی ٹوپی اتار کر اسے اپنے سامنے بطورِ سترہ رکھ لیتے تھے۔‘‘ اس روایت سے دو وجوہ کی بنا پر ننگے سر نماز کے جواز پر استدلال نہیں کیا جا سکتا: 1۔ اس لیے کہ یہ روایت ضعیف ہے اور صاحب ’’تمام المنۃ‘‘ کے بقول اس کے ضعیف ہونے پر دلالت کرنے کے لیے یہی امر کافی ہے کہ اسے روایت کرنے میں ابن عساکر متفرد ہے،پھر انھوں نے
Flag Counter