Maktaba Wahhabi

613 - 699
بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ دوپہر کے قیلولہ اور رات کی نیند میں فرق کرنا ممکن ہے۔چونکہ مسجد میں سونے کے عام جواز پر صرف یہی حدیث دال ہے،لہٰذا جب یہ فرق مان لیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ رات کے سونے کی صریح دلیل کوئی نہ ہوئی،جو جواز کے حکم کا پتا دے۔لہٰذا ان احادیث کے پیشِ نظر تبلیغی جماعت والوں کے رویے پر اعتراض تو نہیں،البتہ نظر ثانی کا مشورہ دیا جا سکتا ہے۔ غرض کہ ان احادیث کی بنا پر جمہور اہلِ علم مسجد میں سونے کے جواز کے قائل ہیں،البتہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مسجد میں سونے کی کراہت کا قول مروی ہے،سوائے اس کے جو محض سونے کے لیے نہیں،نماز کے لیے آئے اور سو بھی لے تو حرج نہیں،کیونکہ امام بغوی نے شرح السنۃ میں ان کا قول تعلیقاً نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے تھے: ’’لَا تَتَّخِذُوْہُ بَیْتًا وَمَقِیْلًا‘‘[1] ’’مسجد کو قیلولہ(دوپہر کے سونے)اور رات کے سونے کی جگہ نہ بناؤ(سوائے نمازی کے)۔‘‘ جبکہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ مطلقاً مسجد میں سونے کو مکروہ سمجھتے تھے۔امام مالک رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ جس کا اپنا گھر ٹھکانا موجود ہو تو مسجد میں سونا مکروہ ہے اور جس کا گھر نہ ہو،اس کے لیے مباح ہے۔[2] مسجد میں سونے یا لیٹنے کے آداب: جب مسجد میں بوقتِ ضرورت سونا جائز ہے تو محض آرام کرنے کے لیے تھوڑا سا لیٹنا کیسے ناجائز ہوسکتا ہے،بلکہ مسجد میں لیٹنے کا ثبوت تو صحیح احادیث میں خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ملتا ہے،البتہ چونکہ مسجد ہے،لہٰذا اس کے تقدس و احترام کے پیشِ نظر ان آداب کا خیال رکھنا چاہیے،جو اس کے لیے ضروری ہیں،جیسے کوئی دری،چٹائی یا گدّا وغیرہ ڈال لینا اور ایسا لباس پہننا جس میں ننگے ہونے کا خدشہ نہ ہو اور انڈر ویئر کا ضرور پہننا،تاکہ بدخوابی کی صورت میں مسجد کی سطح زمین یا اس پر بچھائی گئی دری،صف یا قالین وغیرہ ہر قسم کی آلایشوں سے محفوظ رہے۔ پاؤں دراز کر کے ایک دوسرے پر رکھنا: مسجد میں لیٹنے کا انداز تو خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے،جسے اختیار کرنے والے کے لیے
Flag Counter