Maktaba Wahhabi

348 - 699
وحشت کی علامت قرار دیا جاتا ہے،ہاں یہ وہی چیز ہے جس کا نام کسی مشرقی قوم کی جہالت اور تمدنی پسماندگی کے ضمن میں سب سے پہلے لیا جاتا ہے اور جب یہ بیان کرنا ہوتا ہے کہ کوئی مشرقی قوم تمدّن و تہذیب میں ترقی کر رہی ہے تو سب سے پہلے جس بات کا ذکر بڑے انشراح و انبساط کے ساتھ کیا جاتا ہے،وہ یہی ہے کہ اس قوم سے ’’نقاب‘‘ رخصت ہوگئی ہے۔اب شرم سے سر جھکا لیجیے کہ یہ چیز بعد کی ایجاد نہیں،خود قرآن نے اس کو ایجاد کیا ہے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کو رائج کر گئے ہیں،مگر محض سر جھکانے سے کام نہ چلے گا۔شُتر مرغ اگر شکاری کو دیکھ کر ریت میں سر چھپالے تو شکاری کا وجود باطل نہیں ہوجاتا ہے۔آپ بھی اپنا سر جھکائیں گے تو ضرور سر جھک جائے گا،مگر قرآن کی آیت نہ مٹے گی،نہ تاریخ سے ثابت شدہ واقعات محو ہو جائیں گے۔تاویلات سے اس پر پردہ ڈالیے گا تو یہ ’’شرم کا داغ‘‘ اور زیادہ چمک اٹھے گا۔‘‘[1] اﷲ تعالیٰ حقائق کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کی توفیق سے نوازے۔آمین ثم آمین 17۔امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ: اس سلسلے میں جن اہلِ علم و تقویٰ نے اظہار کیا ہے،ان میں سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بھی ہیں،جن کی کتاب خاص اسی موضوع پر ہے:’’حجاب المرأۃ ولبأسھا في الصلاۃ‘‘ جس میں انھوں نے نماز اور غیر نماز کے تمام حالات میں عورت کے لباس کی تفصیلات انتہائی محققانہ و فاضلانہ انداز سے رقم فرمائی ہیں اور عام پردہ دار لباس کی تفصیلات کے علاوہ خاص چہرے کے بارے میں انھوں نے کافی کچھ لکھا ہے،ان کے کئی اقتباسات بھی ذکر کیے جا چکے ہیں۔جبکہ اسی کتاب میں وہ خاص حجاب و نقاب کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’إِنَّمَا ضُرِبَ الْحِجَابُ عَلَی النِّسَآئِ لِئَلَّا تُرٰی وُجُوْھُھُنَّ وَأَیْدِیَھُنَّ‘‘[2] ’’عورت پر حجاب کا حکم اس لیے نازل کیا گیا ہے،تاکہ ان کے ہاتھ اور منہ بے پردہ نہ رہیں(دیکھے نہ جائیں)۔‘‘
Flag Counter