Maktaba Wahhabi

365 - 699
امام ابو حاتم رازی کہتے ہیں: ’’یہ روایت تو متابعات اور شواہد کے طور پر پیش کیے جانے کے قابل بھی نہیں،چہ جائیکہ یہ محدّثینِ کرام کے نزدیک حجت و دلیل بننے کا مقام حاصل کر سکے،اس کی سند کا یہ حال ہے تو چہرے اور ہاتھوں کے مقامِ ستر نہ ہونے کی دلیل کیا بن پائے گی؟‘‘[1] ایسے ہی دوسرے محدّثین حافظ صلاح الدین العلائی ’’جامع التحصیل في أحکام المراسیل‘‘ میں حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کے واقعہ والی حدیث اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھتیجی والی حدیث دونوں کو ذکر کرکے ان کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’یہ دونوں روایتیں متابعات و شواہد کے طور پر پیش کیے جانے کے قابل بھی نہیں،چہ جائیکہ حجت و دلیل بن سکیں۔اگر یہ اسناد کے اعتبار سے صحیح بھی ہیں،تب بھی یہ شاذ و غیر محفوظ ہیں،جبکہ ان کی اسناد کے ضعف کا تو وہ عالم ہے جو ذکر کیا گیا اور(حقیقت یہ ہے کہ)اس سلسلے میں کوئی ایک بھی مرفوع حدیث صحیح نہیں ہے۔‘‘[2] ضعف کا ایک اور سبب: فریقِ ثانی کی دوسری دلیل اور اس کے طُرق کے ضعف کا ایک اور سبب یہ بھی ہے کہ خالد بن دُریک کے طریق سے مروی حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کے واقعہ والی حدیث ان احادیث و آثار کے بھی مخالف و معارض ہے،جن میں سے ایک میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’ہم احرام کی حالت میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ہوتیں،مردوں کے قافلے ہمارے قریب سے گزرنے لگتے تو ہم سر سے کپڑا گرا کر چہرے کا پردہ کر لیتیں۔‘‘[3] ان کی بہن حضرت اسماء رضی اللہ عنہا ایک دوسری حدیث میں بیان کرتی ہیں: ’’ہم احرام کی حالت میں مردوں سے اپنے چہروں کا پردہ کرتی تھیں۔‘‘[4] ان دونوں احادیث کو پیشِ نظر رکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ اگر خالد بن دریک والی
Flag Counter