Maktaba Wahhabi

620 - 699
’’إِنَّہٗ رَأَی ابْنَ عُمَرَ وَابْنَ عَبَّاسٍ یُقْعِیَانِ‘‘[1] ’’انھوں نے حضرت ابن عمر اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کو اقعاء کرتے دیکھا ہے۔‘‘ غرض کہ یہ بیٹھنے کی چار شکلیں عربوں میں معروف تھیں اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی مختلف اوقات میں ان مختلف اندازوں سے بیٹھا کرتے تھے۔ آمدم برسرِ مطلب: حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام خطابی رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہوئے فتح الباری میں لکھا ہے کہ اس طرح پاؤں پر پاؤں رکھ کر لیٹنے کی ممانعت منسوخ ہوچکی ہے یا پھر ممانعت کو اس صورت پر محمول کرنا پڑے گا،جس میں ستر کھلنے کا خدشہ ہو اور جواز کو دوسری باپردہ صورت پر۔امام بیہقی و بغوی رحمہ اللہ نے بھی اسی جمع و تطبیق کو ہی مانا ہے اور ابن بطال اور ان کے رفقا نے بھی نسخ کے قول ہی کو اختیار کیا ہے،جبکہ حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے شرح الموطا میں لکھا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ پہلے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسجد میں پاؤں پر پاؤں رکھ کر لیٹنے کی فعلی حدیث لائے ہیں اور پھر حضرت عمر و عثمان رضی اللہ عنہما کا بھی یہی عمل بیان کیا ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ ممانعت والی احادیث کو منسوخ سمجھتے تھے،جب کہ مازری نے سب سے الگ بات کہی ہے کہ یوں لیٹنا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے تھا،عام آدمی کے لیے یہ نہیں ہے۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس سلسلے میں بڑا عمدہ محاکمہ کیا اور لکھا ہے کہ خلفاے راشدین رضی اللہ عنہما کا عمل اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے ہرگز نہیں تھا،ورنہ وہ ایسا کبھی نہ کرتے(جبکہ ان سے ایسے بکثرت لیٹنا منقول ہے)اور نسخ کا دعویٰ بھی صحیح نہیں،کیونکہ محض احتمال سے کسی مسئلے کو منسوخ نہیں مانا جا سکتا اور سب سے صحیح تر بات اسے قرار دیا ہے کہ ممانعت کی حدیث اس صورت پر محمول ہوگی،جس میں(گھٹنا کھڑا کر کے اس پر پاؤں رکھنے کے نتیجے میں)ستر کھل جانے کا خدشہ ہو اور جواز کی حدیث اس(پہلی)صورت پر محمول ہوگی،جس میں(پاؤں دراز کر کے ایک کو دوسرے پر رکھنے سے)ستر کھلنے کا اندیشہ نہ ہو۔امام بیہقی و بغوی رحمہ اللہ اور دیگر محدّثین سے بھی اسی کی تائید نقل کی ہے اور اسے ہی اولیٰ کہا ہے۔امام خطابی اور امام بغوی رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ ان پہلی احادیث میں اس بات کی دلیل پائی جاتی ہے کہ مسجد میں ٹیک لگا کر بیٹھنا اور کسی بھی دیگر انداز سے آرام کرنا جائز ہے۔[2]
Flag Counter