Maktaba Wahhabi

516 - 699
بھی خانہ کعبہ میں داخل ہوئے،جبکہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ دروازے پر بیٹھ گئے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ گوٹھ مارے بیٹھے ہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی گوٹھ کھول دی۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ جب اس طرح بیٹھ گئے اور یوں بیٹھنے سے جسم کو راحت ملی تو شاید اونگھ آگئی ہو،یعنی نیند کا غلبہ ہونے سے آنکھ لگ گئی ہو،لہٰذا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے نہ دیکھ سکے ہوں اور جب ان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کے بارے میں سوال کیا گیا تو انھوں نے نماز کی نفی کر دی۔ان کی یہ نفی دراصل اس لیے تھی کہ ان کا اونگھنا صرف معمولی سے وقت کے لیے تھا،کوئی لمبی نیند نہیں تھی،لہٰذا اس تھوڑے سے وقت کے لیے اپنے اونگھ جانے کو کوئی حیثیت نہ دیتے ہوئے انھوں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کی نفی کر دی۔ان ہر دو صورتوں میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کا نفی کرنا اپنی رؤیت و مشاہدہ کے اعتبار سے ہے نہ کہ نفس الامر کی نفی ہے،یعنی ان کی نفی صرف اس بات کی ہے کہ انھوں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے نہیں دیکھا،ان کی نفی سے نماز کے مطلقاً وقوع کی نفی مراد نہیں ہے۔[1] اس ساری تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ خانۂ کعبہ میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے یا نہ پڑھنے سے متعلق احادیث میں سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا قول اور وہی حدیث راجح ہے،جس میں نماز پڑھنے کا ذکر آیا ہے۔مذکورہ اسباب و وجوہات کی بنا پر نماز نہ پڑھنے کا پتا دینے والی حدیث مرجوح ہے۔بعض اہلِ علم نے ایک حدیث کو دوسری پر ترجیح دیے بغیر بھی کئی طریقوں سے ان ہر دو طرح کی احادیث میں موافقت و مطابقت پیدا کی ہے۔ تعارض حل کرنے کے دیگر طریقے: اہلِ علم میں سے بعض محدّثینِ کرام رحمہ اللہ نے اس تعارض کو حل کرنے کے لیے بعض دیگر طریقے بھی اختیار کیے ہیں: 1۔ دونوں طرح کی احادیث میں سے جن احادیث میں اثبات ہے،انھیں صلوٰۃ کے لغوی معنوں یعنی دعا وغیرہ پر محمول کیا جائے اور جن احادیث میں نفی ہے،انھیں صلوٰۃ کے شرعی یا اصطلاحی
Flag Counter