Maktaba Wahhabi

696 - 699
ہمیشہ افضل عمل کی توفیق ارزاں فرماتا تھا،سوائے بیانِ جواز کی بعض استثنائی حالتوں کے،جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھار غیر افضل پر بھی عمل کر لیا کرتے تھے،تاکہ اس کا جواز واضح ہوجائے۔[1] مسجد میں نمازِ جنازہ: آداب و احکامِ مسجد کا ذکر ہوتا آرہا ہے اور کتنے ہی ایسے امور کا تذکرہ کیا جا چکا ہے،جو مسجد میں جائز یا ناجائز ہیں،ایسے امور میں سے ہی ایک مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنا بھی ہے۔جنازے کے احکام و مسائل کی تفصیل کا یہ موقع نہیں،البتہ صرف اتنا کہے جاتے ہیں کہ نمازِ جنازہ فرض کفایہ ہے اور اس کے فرض کفایہ ہونے پر امام ابن الہمام نے فتح القدیر شرح ہدایہ میں اجماع نقل کیا ہے۔[2] جبکہ بعض مالکیہ نے اسے محض سنت قرار دیا ہے اور امام نووی رحمہ اللہ نے ان کی تردید کی ہے۔[3] احکام و مسائلِ جنازہ میں سے اس وقت ہمارے پیشِ نظر صرف ایک ہی پہلو ہے اور وہ پہلو یہ کہ آیا کسی کی نمازِ جنازہ مسجد میں بھی پڑھی جا سکتی ہے یا نہیں؟ تو اس سلسلے میں عرض یہ ہے کہ عام طور پر تو نمازِ جنازہ شہروں اور دیہات میں بنائی گئی جنازہ گاہوں میں پڑھی جاتی ہے اور کبھی کبھی کسی اﷲ والے کی نمازِ جنازہ پڑھنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ جنازہ گاہ کا دامن تنگ نظر آنے لگتا ہے تو ایسے مواقع پر نمازِ جنازہ کا انتظام شہروں میں موجود بڑے بڑے میدانوں یا گراؤنڈوں میں کر دیا جاتا ہے۔کبھی کسی ایسے میدان یا جنازہ گاہ میں نماز پڑھی جا سکنے کی وجہ سے امکانات ہی نہ ہوں تو ایسے عذر کی حالت میں یا بوقتِ ضرورت مسجد میں بھی کسی کی نمازِ جنازہ پڑھی جا سکتی ہے،کیونکہ صحیح مسلم،سننِ اربعہ و بیہقی،مصنف ابن ابی شیبہ اور مسند احمد میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں عباد بن عبداﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکم فرمایا کہ جنازہ لے جانے والوں سے کہو کہ وہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا جنازہ لے کر مسجدِ نبوی سے ہوتے ہوئے جائیں،تاکہ میں ان کی نمازِ جنازہ پڑھ لوں،تو وہ لوگ جنازہ لائے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھی۔بعض لوگوں نے مسجد میں جنازہ پڑھنے
Flag Counter