Maktaba Wahhabi

374 - 699
حالت میں اس عورت کو دیکھا اور خاموشی اختیار فرما کر اسے سندِ جواز مہیا فرمائی ہو،ایسا تو ہرگز نہیں ہے۔ اگر بفرضِ محال مان ہی لیا جائے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس عورت کو بے حجاب دیکھا ہے اور بلا نکیر خاموشی اختیار فرمائی تو بھی اس امر کو ان دو میں سے کسی ایک پر محمول کیا جائے گا۔(جن کا ذکر ہم پہلے بھی کر آئے ہیں کہ)پہلی بات تو یہ کہ واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے پیش آیا ہوگا اور دوسری بات یا دوسرا احتمال یہ بھی ہے کہ ممکن ہے وہ عورت ایسی عمر رسیدہ خواتین میں سے ہو،جو نکاح کی عمر سے گزر چکی ہوں،جنھیں اﷲ نے بھی پردے کے معاملے میں کچھ تخفیف فرمائی ہے،بشرطیکہ وہ زیب و زینت کی نمایش کرنے والی نہ ہوں۔جب حضرت جابر رضی اللہ عنہ والی حدیث کے بارے میں کئی ایک احتمالات پائے جاتے ہیں،تو پھر مذکورہ مسئلے میں اسے دلیل بنانا صحیح نہ رہا،کیونکہ اصولی قاعدہ ہے: ’’مَا تَطَرَّقَ إِلَیْہِ الْاِحْتِمَالُ سَقَطَ بِہِ الْاِسْتِدْلَالُ‘‘ ’’جس میں احتمال واقع ہوجائے،اس سے استدلال ساقط ہوجاتا ہے۔‘‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال اور اس کے تجزیے کی تفصیل شیخ حمود التویجری کی کتاب ’’الصارم المشھور‘‘ علامہ شنقیطی کی تفسیر ’’أضواء البیان‘‘(6/597-599)اور ’’اللباب في فرضیۃ النقاب‘‘(ص:46-50)میں دیکھی جا سکتی ہے۔ چوتھی دلیل: فریقِ ثانی کی حجاب و نقاب کے عدمِ وجوب پر چوتھی دلیل وہ حدیث ہے،جس میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے برادرِ عمزاد حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کا ایک واقعہ مذکور ہے۔چنانچہ صحیح بخاری و مسلم،سنن ابو داود،نسائی،ابن ماجہ،بیہقی،مسند احمد اور محلّٰی ابن حزم میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ’’(حجۃ الوداع کے موقع پر دس ذوالحجہ)یومِ نحر کو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہما کو اپنے پیچھے اپنی سواری پر بٹھایا ہوا تھا اور فضل خوبرو جوان تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک جگہ رکے اور لوگوں کے سوالوں کا جواب دینے لگے،وہیں قبیلہ بنی خثعم کی ایک خوبصورت عورت بھی آگئی،فضل رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور انھیں اس عورت کا حسن بہت بھایا،نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ فضل اسے
Flag Counter