Maktaba Wahhabi

688 - 699
میں بھی اس کی اباحت اور عدمِ کراہت تو بالاولیٰ ہے۔[1] چار مختلف صورتوں پر مشتمل اس تقسیم کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ دو مختلف قسم کی احادیث میں جو بظاہر تضاد و تعارض بنتا نظر آتا ہے کہ بعض میں جواز اور بعض میں ممانعت وارد ہوئی ہے تو اس تقسیم سے وہ سارا تضاد و تعارض ختم ہوجاتا ہے۔ خواتین کے لیے حکم: یہ معاملہ کوئی صرف مسجد میں جا کر نمازیں پڑھنے والے مردوں کے ساتھ ہی خاص نہیں ہے،بلکہ اس فعل کی کراہت و ممانعت جہاں مردوں کے لیے ہے،وہیں عورتوں کے لیے بھی ہے۔وہ مسجد میں نہیں آتیں تو کم از کم گھر میں سہی جانماز پر تو کھڑی ہوتی اور بیٹھتی ہیں،کچھ نماز پڑھ کر اور کچھ امور کے لیے اور کبھی ایک نماز پڑھ کر دوسری کے لیے بھی جانماز پر بیٹھی رہتی ہیں،پھر وہ بھی تو وضو کر کے جانماز کا اہتمام کرتی ہیں،ان سب صورتوں کے دوران میں ان کے لیے بھی انگلیوں میں انگلیاں ڈالنا ممنوع ہے اور جن دو صورتوں میں مَردوں کے لیے اباحت اور عدمِ کراہت ذکر کی گئی ہے،ظاہر ہے کہ انہی دو صورتوں میں عورتوں کے لیے بھی اباحت اور عدمِ کراہت وارد ہے۔ جواز کی صورتیں اور رفعِ تعارض: اب رہیں وہ دو صورتیں جن میں دونوں ہاتھوں کی انگلیو ں میں انگلیاں ڈالنا جائز ہے،ان میں سے پہلی یہ کہ کوئی شخص مسجد سے باہر تو نہ نکلا ہو،لیکن نہ وہ کچھ اور نماز پڑھتا ہو اور نہ وہ اگلی نماز کے انتظار میں ہو،ایسی صورت میں یہ جائز ہے اور اگر مسجد سے باہر ہو اور وضو کر کے نماز کے لیے مسجد بھی نہ جا رہا ہو تو اس مطلق حالت میں یہ بالاولیٰ جائز ہوگا،چنانچہ اس سلسلے میں جن احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے،ان میں سے ایک تو وہ ہے جو صحیح بخاری و مسلم،سنن ترمذی و نسائی اور کتاب الایمان ابن ابی شیبہ میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: {إِنَّ الْمُؤْمِنَ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُہٗ بَعْضًا} ’’ایک مومن دوسرے مومن کے لیے(سیسہ پلائی)دیوار کی طرح ہے جس کے حصے ایک
Flag Counter