Maktaba Wahhabi

267 - 699
’’عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو(خود بخود)ظاہر ہو جائے اور انھیں چاہیے کہ وہ اپنے گریبانوں(سینوں)پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔‘‘ یہاں جو﴿اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا﴾کے الفاظ ہیں کہ ’’سوائے اس کے جو(خود بخود)ظاہر ہوجائے۔‘‘ اسے زینتِ ظاہرہ قرار دیا گیا ہے،جو نماز میں عورت ظاہر کر سکتی ہے اور وہ ہے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق چہرے اور ہاتھوں کی زینت،جس کا اظہار نماز میں جائز ہے۔گویا دورانِ نماز عورت اپنے چہرے اور ہاتھوں کو ننگا رکھ سکتی ہے،بلکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’بالاجماع چہرے،ہاتھوں اور پاؤں کا ڈھانپنا واجب نہیں ہے،بلکہ چہرے کا ننگا کرنا بالاجماع جائز ہے،اگرچہ یہ زینت باطنہ میں سے ہے،ایسے ہی جمہور علماے امت کے نزدیک جن میں امام ابو حنیفہ،امام شافعی رحمہ اللہ اور ایک روایت کے مطابق امام احمد رحمہ اللہ بھی شامل ہیں،نماز میں ہاتھوں کا ظاہر کرنا بھی جائز ہے۔‘‘[1] یہ تو ہے چہرے اور ہاتھوں کا حکم،جو مختصر انداز سے صرف نماز کے اندر اندر کے لیے بیان ہوا ہے،رہا معاملہ عام حالات میں نماز سے باہر گلی بازار چلتے وقت پردے کے سلسلے میں ان کا حکم بھی موقع کی مناسبت سے ہم اس موضوع کو بھی قدرے تفصیل کے ساتھ بیان کیے دیتے ہیں،لیکن پہلے نماز ہی کے اندر اندر عورت کے پاؤں کا حکم کہ آیا وہ انھیں ڈھانپ کر رکھے یا کھلا رکھ سکتی ہے؟ نماز میں پاؤں کا حکم: اس سلسلے میں ایک رائے تو یہ ہے کہ نماز میں عورت اپنے پاؤں کو بھی اور خصوصاً ان کے اوپر کے حصوں کو ڈھانپ کر رکھے،اس پر اس روایت سے استدلال کیا جاتا ہے،جو ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے سنن ابو داود،بیہقی،مستدرک حاکم،موطأ امام مالک اور طبقات ابن سعد میں مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح سے مروی ہے۔موقوف روایت میں ہے کہ محمد بن زید کی والدہ نے ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: ’’مَا ذَا تُصَلِّيْ فِیْہِ الْمَرْأَۃُ مِنَ الثِّیَابِ؟‘‘ ’’عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھے؟‘‘ تو انھوں نے فرمایا:
Flag Counter