Maktaba Wahhabi

646 - 699
ساتھ(پہلی ہی منزل پر)کمرہ ہے،جہاں امام مسجد رہایش پذیر ہیں،اس کے علاوہ پانی،بجلی اور سوئی گیس کے کنکشن بھی اکٹھے ہیں اور وہ مسجد کے چندے سے ادا ہوتے ہیں،جس سے مسجد کا خرچہ زیادہ ہوگیا ہے،اس اکٹھے کنکشن پر اعتراض میں وہ پھر خدمت والی دلیل پیش کرتا ہے۔ قرآن و سنت کی روشنی کے مطابق آپ یہ بتائیں کہ کیا ایسا شخص مسجد کی دوسری منزل پر گھر بنا سکتا ہے یا مسجد میں کوئی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ بغیر کسی مجبوری کے یا ویسے رہایش رکھ سکتا ہے،جن میں لیٹرین بھی شامل ہوتی ہے؟(ایک سائل) الجواب بعون الوہاب: اسلام میں مسجدوں کی طہارت اور صفائی کے بارے میں چونکہ سخت تاکید کی گئی ہے،اس لیے ان میں کوئی ایسا فعل نہیں ہونا چاہیے،جو ان کی عظمت اور آداب و احترام کے منافی ہو یا ان کی شان میں تحقیر و تذلیل کے پہلو کی نشان دہی کرتا ہو۔صحیح مسلم میں حدیث ہے: {إِنَّ ھٰذِہِ الْمَسَاجِدَ لَا تَصْلُحُ لِشَیْیٍٔ مِنْ ھٰذَا الْبَوْلِ وَلَا الْقَذَرِ وَإِنَّمَا ھِيَ لِذِکْرِ اللّٰہِ وَقِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ}[1] ’’مسجدوں میں بول و براز اور نجاست وغیرہ کا پھیلانا درست نہیں۔یہ تو محض اﷲ کی یاد اور قرآن کی تلاوت کے لیے بنائی گئی ہیں۔‘‘ اس بنا پر امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وَیُکْرَہُ أَنْ یُّجْعَلَ الْمَسَاجِدُ مَقْعَدِ الْحِرْفَۃِ کَالْخِیَاطَۃِ وَنَحْوِھَا‘‘[2] ’’مسجد کو باقاعدہ پیشہ سلائی وغیرہ کے لیے اڈہ بنا لینا غیر درست ہے۔‘‘ البتہ اتفاقی امر کا کوئی حرج نہیں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے طائف کے دو آدمیوں کو مسجد الرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں آوازے لگاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’لَوْ کُنْتُمَا مِنْ أَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ لَأَوْجَعْتُکُمَا‘‘ ’’اگر تم اہلِ مدینہ سے ہوتے تو اس فعل کے ارتکاب پر میں تمھیں سزا دیتا۔‘‘ نیز احترامِ مسجد کے پیشِ نظر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد کی ایک جانب مجلس بنوائی تھی،اس کا نام
Flag Counter