Maktaba Wahhabi

323 - 699
نے کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ یہ حدیث مرسل ہے،جبکہ اس کی شاہد مستدرک حاکم میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ایسے ہی یہ حدیث معجم طبرانی اوسط میں بھی مروی ہے اور اس کی سند میں بعض راوی ایسے ہیں،جن کے بارے میں ہیثمی رحمہ اللہ نے عدمِ معرفت کا اقرار کیا ہے۔لیکن یاد رہے کہ یہ دوسری حدیث معرضِ استدلال نہیں بلکہ محض شاہد ہے۔ بہر حال حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا طلاق کے بعد نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان کے پاس آنے پر چادر اوڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پردہ کر لینا اس بات کا ثبوت ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مسعود میں پردہ رائج تھا اور انھوں نے جلباب میں اپنا چہرہ چھپا کر انتہائی واضح انداز سے بتا دیا کہ چہرے کا پردہ واجب ہے۔اگر چہرے کا پردہ ہی نہ ہوتا تو پھر حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے اس فعل کا کوئی معنیٰ ہی نہ تھا،تب وہ اپنی حالت پر قائم رہتیں،خصوصاً جبکہ اندر آنے والا کوئی عام انسان نہیں تھا،بلکہ وہ تو محبوبِ الٰہی حضرت محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر تو ویسے بھی یہ حالت تو کیا عام حالات میں بھی غیر محرم مومن عورت کو دیکھنا حرام نہیں تھا،جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اپنی تحقیق کا نچوڑ ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’وَالَّذِيْ تَحَرَّرَ عِنْدَنَا أَنَّہٗ صلی اللّٰه علیہ وسلم کَانَ لَا یَحْرُمُ عَلَیْہِ النَّظَرُ إِلَی الْمُؤْمِنَاتِ الْأَجْنَبِیَّاتِ بِخِلَافِ غَیْرِہٖ‘‘[1] ’’ہمارے نزدیک یہ بات طے ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر عام لوگوں(مردوں)کے برعکس،غیر محرم مومن عورتوں پر نظر ڈالنا حرام نہیں تھا۔‘‘ اس کے باوجود حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا یہ عمل وجوبِ حجابِ چہرہ کی واضح دلیل ہے اور جلباب اوڑھ کر ان کے پردہ کر لینے کے ساتھ چہرہ چھپا لینے کا تذکرہ جلباب کے لغوی معنیٰ کی بنیاد پر ہی کیا جا رہا ہے،جیسا کہ تفصیل ذکر کی جا چکی ہے۔ تیرھویں حدیث: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں عورتوں کے چہرے کو ڈھانپنے اور حجاب کے صحابیات رضی اللہ عنہما میں عام ہونے کا پتا اس حدیث سے بھی چلتا ہے،جو طبقات ابن سعد میں حبیب بن ابی ثابت کے طریق سے
Flag Counter