Maktaba Wahhabi

347 - 699
نیز کہتے ہیں: ’’گویا جو لوگ پاؤں کو مقامِ ستر قرار دیتے ہیں،انھی کی طرف سے چہرے کو مقامِ ستر قرار نہ دینا قطعاً معقول بات نہیں ہے،کیونکہ بگاڑ پیدا کرنے میں پاؤں چہرے کا مقابلہ کہاں کر سکتے ہیں؟‘‘ آگے چل کر مزید لکھتے ہیں: ’’جس نے صحابیات رضی اللہ عنہما اور تابعیات رحمہ اللّٰه علیھنّ اور سلف صالحین کی زندگیوں کے بارے میں مطالعہ کیا اور پڑھا ہے کہ وہ خواتین کس طرح پردے کا اہتمام کیا کرتی تھیں اور کیسے عصمت و عفت کے تحفظ پر توجہ دیتی تھیں،اس سے ان لوگوں کی غلطی کا پتا چل جاتا ہے،جو یہ کہتے ہیں کہ چہرے کا پردہ واجب نہیں ہے۔‘‘[1] 16۔مولانا سید مودودی رحمہ اللہ: اردو لٹریچر میں اس موضوع کی جامع اور معروف کتاب ’’پردہ‘‘ کے مؤلف(مولانا سید مودودی)’’نقاب‘‘ کے زیرِ عنوان لکھتے ہیں: ’’جو شخص آیتِ قرآنی کے الفاظ اور ان کی مقبول عام اور متفق علیہ تفسیر اور عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تعامل کو دیکھے گا،اس کے لیے اس حقیقت سے انکار کی مجال باقی نہیں رہے گی کہ شریعتِ اسلامیہ میں عورت کے لیے چہرے کو اجانب سے مستور رکھنے کا حکم ہے اور اس پر خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے عمل کیا جا رہا ہے۔نقاب اگر لفظاً نہیں تو معناً و حقیقتاً خود قرآنِ عظیم کی تجویز کردہ چیز ہے۔جس ذاتِ مقدس پر قرآن نازل ہوا تھا،اس کی آنکھوں کے سامنے خواتینِ اسلام نے اس چیز کو اپنے خارج البیت لباس کا جزو بنایا تھا اور اس زمانے میں بھی اس چیز کا نام نقاب ہی تھا۔‘‘[2] ’’جی ہاں! یہ وہی نقاب ہے جس کو یورپ انتہا درجہ مکروہ اور گھناؤنی چیز سمجھتا ہے،جس کا محض تصوّر ہی فرنگی ضمیر پر ایک بارِ گراں ہے،جس کو ظلم اور تنگ خیالی اور
Flag Counter