Maktaba Wahhabi

508 - 699
چھوڑ کر دیگر ابواب سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ موصوف رحمہ اللہ نے اس ایک واقعے پر مشتمل آٹھ مختلف اور اہم مسائل اخذ کیے ہیں۔ دخولِ کعبہ کا موقع: نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خانہ کعبہ میں داخل ہونے اور دو رکعت پڑھنے سے تعلق رکھنے والے واقعے پر مشتمل حدیث ذکر کی جاچکی ہے،البتہ اس واقعے سے متعلق بعض امور کی وضاحت کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے،چنانچہ یہ بات تو خود صحیح بخاری ’’کتاب الجہاد:باب الردف علی الحمار‘‘ کے تحت آنے والی حدیث ہی میں مذکور ہے کہ خانہ کعبہ میں داخل ہونے والا واقعہ فتح مکہ کے موقع پر رو نما ہوا تھا۔جیسا کہ اس حدیث کے شروع ہی میں مذکور ہے: {إِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم أَقْبَلَ یَوْمَ الْفَتْحِ مِنْ أَعْلٰی مَکَّۃَ}[1] ’’فتح مکہ کے موقع پر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کی بالائی جانب سے تشریف لائے۔‘‘ ان الفاظ میں صراحت موجود ہے،لہٰذا مزید کسی شہادت کی ضرورت نہیں۔ حجۃ الوداع کے موقع پر دروازہ بند کر لینے کی حکمت: یہ بات معروف ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں داخل نہیں ہوئے تھے۔[2] حدیث میں یہ بات بھی گزری ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،اسامہ بن زید،بلال اور عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہم خانہ کعبہ میں داخل ہوگئے تھے: {فَأَغْلَقُوْا عَلَیْھِمُ الْبَابَ}’’ان سب نے اندر سے خانہ کعبہ کا دروازہ بند کر لیا۔‘‘ اندر سے دروازہ بند کیوں کیا گیا اور آخر اس کی حکمت کیا ہے؟ اس سلسلے میں ابن بطال نے کہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اس لیے کیا،تاکہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے نہ دیکھ سکیں اور دیکھ لینے کی صورت میں کہیں یہ نہ سمجھنے لگیں کہ یہ دخولِ کعبہ اور نماز لازمی سنت ہے(یہ بات ظاہر ہے کہ باعثِ مشقت ہوجاتی)لیکن شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہ تعلیل یا حکمت ضُعف کے ساتھ ساتھ باہم متناقض بھی ہے،کیونکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز کو چھپانا ہی ضروری سمجھتے تو پھر حضرت
Flag Counter