Maktaba Wahhabi

121 - 699
محمد بن نصر مروزی رحمہ اللہ کے حوالے سے علامہ ابن قیم نے روایت کیا ہے،مثلاً امام ایوب رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’تَرَکُ الصَّلَاۃِ کُفْرٌ لَا یُخْتَلَفُ فِیْہِ‘‘ ’’ترکِ نماز کفر ہے،جس میں اختلاف نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ امام عبداﷲ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’مَنْ أَخَّرَ صَلَاۃً حَتّٰی یَفُوْتَ وَقْتُھَا مُتَعَمِّداً مِنْ غَیْرِ عُذْرٍ فَقَدْ کَفَرَ‘‘ ’’جس نے بلا عذر جان بوجھ کر نماز کو اتنا مؤخر کر دیا کہ اس کا وقت ہی ختم ہوگیا تو اس نے کفر کیا۔‘‘ ایک دوسرے قول میں وہ کہتے ہیں: ’’مَنْ قَالَ:إِنِّيْ لَا أُصَلِّيْ الْمَکْتُوْبَۃَ الْیَوْمَ فَھُوَ أَکْفَرُ مِنْ حِمَارٍ‘‘ ’’جس نے یہ کہا کہ میں آج کی فرض نماز نہیں پڑھوں گا تو وہ گدھے سے بھی بدتر کافر ہے۔‘‘ اسی طرح امام ابن ابی شیبہ اور اسحاق رحمہ اللہ کے اقوال بھی ہیں۔[1] ان کے علاوہ متعدد ائمہ و فقہا کے اسماے گرامی بھی اس موضوع کے آغاز میں ذکر کیے جا چکے ہیں،جنھیں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ محاکمہ: اس طرح تارکِ نماز کے بارے میں دونوں طرح کی آرا کے دلائل تو کافی تفصیل سے آگئے،اب ہر دو طرح کے دلائل کو سامنے رکھتے ہوئے کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے ان کے مابین فیصلہ باقی ہے،اس سلسلے میں ہم بعض محققین و مجتہدین اور فقہا و محدّثین کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ امام ابن قدامہ: سب سے پہلے فقہ حنبلی کے رکنِ رکین امام ابن قدامہ کی رائے دیکھیں! چنانچہ موصوف ’’المغني‘‘ میں کئی صفحات پر مشتمل بحث میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی نماز کی فرضیت کا قائل ہو،اس کا انکار نہ کرے،البتہ بے پروائی اور سستی کی وجہ سے نماز نہ پڑھے تو اسے تین دن تک نماز کی طرف بلایا جائے اور کہا جائے کہ تم نے نماز شروع نہ کی تو تمھیں قتل کر دیا جائے گا۔اگر وہ پابند ہوجائے تو ٹھیک ہے،ورنہ اُسے قتل کرنا واجب ہے اور اگر وہ فرضیت کا ہی منکر ہو تو وہ مرتد ہے۔
Flag Counter