Maktaba Wahhabi

349 - 699
18۔علامہ ابن قیم رحمہ اللہ: علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی آرا اور فتاویٰ بڑے معروف ہیں،وہ تو کنیزوں کے لیے بھی وجوبِ حجاب کے قائل ہیں اور احرام کی حالت میں بھی عورت کے لیے ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ غیر مردوں کی موجودگی میں چہرے کا پردہ کرے،ان کے یہاں ستر کی دو قسمیں ہیں:1نماز میں ستر۔2 عام حالات میں دوسروں کی نظر سے بچنے کے لیے ستر۔ اس تقسیم کے ضمن میں وہ کہتے ہیں کہ عورت گھر میں ننگے منہ نماز پڑھ سکتی ہے،لیکن غیر محرم مردوں کے سامنے ننگے منہ نہیں آسکتی۔[1] 19۔شیخ محمد صالح العثیمین: دَورِ حاضر میں شیخ محمد صالح العثیمین کا شمار اہلِ تقویٰ علما میں سے ہوتا ہے۔موصوف نے پردے کے موضوع پر ایک رسالہ لکھا ہے،جس کا سببِ تالیف بیان کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں: ’’اِعْلَمْ أَیُّھَا الْمُسْلِمُ أَنَّ اِحْتِجَابَ الْمَرْأَۃِ عَنِ الرِّجَالِ الْأَجَانِبِ وَتَغْطَیَۃَ وَجْھِھَا أَمْرٌ وَاجِبٌ،دَلَّ عَلٰی وُجُوْبِہٖ کِتَابُ رَبِّکَ تَعَالٰی وَسُنَّۃُ نَبِیِّکَ مُحَمَّدٌ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَالْإِعْتِبَارُ الصَّحِیْحُ وَالْقَیَاسُ الْمُطْرَدُ‘‘[2] ’’اے مسلمان! تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ غیر مردوں کی موجودگی میں عورت کا پردہ کرنا اور چہرے کو ڈھانپنا ایک واجب امر ہے اور اس کے وجوب کے دلائل تیرے رب کی کتاب قرآنِ کریم اور تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و عمل،اعتبارِ صحیح اور قیاس مطرد میں موجود ہیں۔‘‘ آگے پھر انھوں نے وہ تمام دلائل نقل کیے ہیں،جن میں سے تقریباً سبھی ہم ذکر کر چکے ہیں۔[3] 20۔شیخ ابو بکر الجزائری: ایسے ہی مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے واعظ اور مدینہ یونیورسٹی کے دراساتِ علیا کے پروفیسر شیخ ابوبکر جابر
Flag Counter