Maktaba Wahhabi

602 - 699
چنانچہ ابو الزبیر حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت بیان کرتے ہیں،جس میں مولی کا بھی ذکر ہوا ہے،لیکن اس روایت کی سند میں ضعف پایا جاتا ہے۔[1]لہٰذا اس سے استدلال تو صحیح نہیں،البتہ اس کی بو والی علت معقول ہے،لہٰذا احتیاط ہی میں بہتر ہے۔ بعض دیگر اشیا: بعض لوگوں نے بدبو والی علت کو بنیاد بنا کر کئی دیگر امور کو بھی مسجد میں داخل ہونے کے موانع میں سے شمار کیا ہے،جیسے کسی کے منہ یا بغلوں سے ناگوار بو مسلسل آتی ہو اور بعض لوگوں کو کوئی ایسا زخم ہوتا ہے،جس سے سخت قسم کی بو پھوٹتی رہتی ہے اور بعض نے صنعتِ ماہی گیری والوں کو بھی شمار کر لیا ہے کہ مسلسل مچھلیوں میں رہتے رہتے ان کی بو ان میں رچ بس گئی ہوتی ہے،جو محض وضو کرنے سے زائل نہیں ہوتی،اس قسم کے امور کی طرف اشارہ کرنے کے بعد امام ابن دقیق العید نے لکھا ہے کہ یہ توسّع کہ ان سب امور کو لہسن وغیرہ والی احادیث کے تحت داخل کر لیا جائے،یہ کوئی ٹھیک نہیں ہے،یعنی اس پر انھوں نے رضا مندی کا اظہار نہیں کیا۔[2] حتیٰ کہ البدر ابن المنیر نے حاشیہ بخاری میں اور امام قرطبی رحمہ اللہ نے تو اپنی تفسیر میں یہ تک نقل کیا ہے کہ موذی مرض کے مریض جیسے جذام یا کوڑھ وغیرہ کے مریض لوگ ہیں،انھیں بھی مساجد میں نہیں جانا چاہیے،جب تک کہ بیماری ختم نہ ہوجائے۔[3] لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس بات کو محلِ نظر قرار دیتے ہوئے فتح الباری میں لکھا ہے کہ کوڑھی کی بیماری و علت آسمانی امر ہے،اس کے بس سے باہر ہے،جبکہ لہسن یا پیاز کھانے والا اس معاملے میں خود مختار ہوتا ہے،لہٰذا کوڑھی کو اس پر قیاس کرنا صحیح نہیں۔[4] لمحہ فکریہ: امام ابن دقیق العید اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے دلائل بڑے مضبوط ہیں،البتہ ہم یہاں اس بات کی طرف توجہ دلانا ضروری سمجھتے ہیں کہ امام ابن دقیق العید کی عدمِ رضا مندی اگر کسی حد تک اپنی جگہ بجا ہے تو منہ اور بغلوں کی بدبو کی بیماری والے لوگوں،بدبودار زخم والے مریضوں اور صنعت ماہی گیری
Flag Counter