Maktaba Wahhabi

368 - 699
کے وسط میں بیٹھی ہوئی ایک عورت،جس کے گال پچکے ہوئے اور سیاہی مائل تھے،اس نے عرض کی:اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !(اکثر عورتیں،جہنم کا ایندھن)کیوں ہوں گی؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: {لِأَنَّکُنَّ تُکْثِرْنَ الشکَاۃَ وَتَکْفُرْنَ الْعَشِیْرَ} ’’وہ اس لیے کہ تم شکوہ و شکایت کثرت سے کرتی ہو اور شوہروں کی ناشکرگزار ہوتی ہو۔‘‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’فَجَعَلْنَ یَتَصَدَّقْنَ مِنْ حُلِیِّھِنَّ یُلْقِیْنَ فِيْ ثَوْبِ بِلَالٍ مِنْ أَقْرَاطِھِنَّ وَخَوَاتِمِھِنَّ‘‘[1] ’’عورتوں نے اپنے زیوارت میں کانوں کی بالیاں اور انگوٹھیاں صدقہ کرنا شروع کر دیں۔‘‘ یہ حدیث فریقِ ثانی کی تیسری دلیل ہے اور اس میں محلِ استدلال و استشہاد حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے وہ الفاظ ہیں،جن میں وہ اس عورت کے چہرے کا یہ وصف بیان کرتے ہیں کہ وہ پچکے ہوئے سیاہی مائل گالوں والی عورت تھی۔ عدمِ وجوب کے قائلین کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں اس بات کی واضح دلیل موجود ہے کہ چہرے کا پردہ واجب نہیں اور اگر چہرے کا پردہ واجب ہوتا تو اس عورت نے بھی چہرہ چھپایا ہوا ہوتا اور حضرت جابر رضی اللہ عنہ اس کے بارے میں یہ نہ کہہ سکتے کہ وہ پچکے ہوئے سیاہی مائل گالوں والی عورت تھی،اس کا چہرہ ننگا تھا،لہٰذا حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اسے دیکھا اور یہ الفاظ کہے۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس عورت کو اس حال میں دیکھنا اور نکیر و ممانعت نہ کرنا،بلکہ غیر مردوں کی موجودگی میں اسے اسی حالت پر برقرار رہنے دینا،چہرہ ننگا رکھنے کے جواز کی دلیل ہے۔ یہ ہے اس حدیث سے ان کا طریقۂ استدلال،جس پر کئی اعتراضات وارد ہوتے ہیں اور اس میں کئی جھول پائے جاتے ہیں،لہٰذا ہم اس حدیث کا جائزہ لیتے ہیں۔ تیسری دلیل کا تجزیہ: ان کی اس تیسری دلیل کا مجمل سا جواب تو یہ ہے کہ یہ حدیث تو صحیح ہے،لیکن چہرہ ننگا رکھنے
Flag Counter