Maktaba Wahhabi

369 - 699
کے جواز پر صراحت سے دلالت نہیں کرتی،یعنی صحیح تو ہے لیکن صریح نہیں ہے،بلکہ اس میں کئی احتمالات پائے جاتے ہیں: 1- وہ عورت عمر رسیدہ ہو،جن کے لیے احکامِ پردہ میں خود اﷲ تعالیٰ نے کافی حد تک تخفیف فرما دی ہے،جیسا کہ سورۃ النور میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآئِ الّٰتِیْ لاَ یَرْجُوْنَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْھِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍم بِزِیْنَۃٍ وَّاَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّھُنَّ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ﴾[النور:60] ’’اور وہ عمر رسیدہ عورتیں جو نکاح کرنے کی عمر سے تجاوز کر چکی ہوں،وہ اگر پردے کی چادریں اتار دیں تو ان پر کوئی حرج نہیں،بشرطیکہ ان کا یہ فعل اظہارِ زیب و زینت کے لیے نہ ہو اور اگر وہ(اس عمر میں بھی)حیا داری و پردہ اختیار کریں تو ان کے لیے بہتر ہے اور اﷲ سننے والا جاننے والا ہے۔‘‘ اگر وہ عورت ایسی عمر رسیدہ تھی تو اس کا چہرہ کھولے ہوئے ہونا عام عورتوں کے لیے دلیل نہیں بن سکتا،کیونکہ اسے تو خود اﷲ تعالیٰ نے اس کی گنجایش دی ہے۔ 2- اس حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ میں دوسرا احتمال یہ بھی پایا جاتا ہے کہ یہ واقعہ نزولِ حجاب یعنی پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے رونما ہوا ہو۔اگر ایسا ہو تب بھی یہ واقعہ اس مسئلے میں دلیل نہیں بن سکتا۔ 3- اس میں ایک تیسرا احتمال یہ بھی ہے کہ وہ عورت کنیزوں اور خصوصاً ایسی کنیزوں میں ہو،جنھیں چہرے کے پردے میں بعض شرائط کے ساتھ نرمی کا حکم دیا گیا ہے(جیسا کہ تفصیل ذکر کی جا چکی ہے)اور اگر وہ عورت عام کام کاج میں مصروف رہنے والی کنیزوں میں سے تھی تو بھی اس واقعے سے دلیل لینا صحیح نہیں ہے۔[1] ان تین احتمالات میں سے جو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ پردے کا حکم نازل ہونے سے پہلے کا ہوگا،اس کا تو قائلینِ جوازِ کشف نے یہ جواب دیا ہے کہ یہ واقعہ نزولِ حجاب سے پہلے کا نہیں بلکہ نزولِ حجاب کے بعد کا ہے اور ’’حجاب المرأۃ المسلمۃ‘‘ کے مولف(علامہ ناصر الدین البانی)نے اپنی اس
Flag Counter