Maktaba Wahhabi

455 - 699
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قبر پر یا قبر کی طرف منہ کر کے یا دو قبروں کے مابین کھڑے ہو کر نماز پڑھنا مکروہ ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب میں اس اثر کو ذکر کرنے سے پہلے ’’ھَلْ یُنْبَشُ قُبُوْرَ مُشْرِکِيَ الْجَاھِلَیَّۃِ‘‘ اور ایک حدیث ذکر کرنے کے بعد یہ جملہ بھی اپنی تبویب کا جزو بنایا ہے:’’وَمَا یُکْرَہُ مِنَ الصَّلَاۃِ فِي الْقُبُوْرِ‘‘ ’’قبروں میں نماز کی کراہت کا بیان‘‘ جس سے ان کے رجحان کا پتا چلتا ہے۔ تینوں مفاہیم ومعانی مراد ہیں: یہ تین مفاہیم و معانی ہیں،جو قبروں کو مسجد یا عبادت گاہ بنانے کے سلسلے میں اہلِ علم نے بیان کیے ہیں۔اگرچہ مختلف علما نے یہ معانی الگ الگ مراد لیے ہیں۔کسی نے قبروں پر مسجد بنانا مراد لیا ہے،کسی نے قبروں کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا جس میں قبر اور قبر والے کی تعظیم مقصود ہو اور کسی نے قبر پر نماز پڑھنا تعظیم و تبرک کے خیال سے،ذکر کی گئی چودہ احادیث سے بیک وقت یہ تینوں معنیٰ ہی مراد لیے ہیں اور ان تینوں افعال ہی سے کراہت کا اظہار کیا ہے۔ ملا علی قاری نے بھی اپنے ائمہ وشارحین احناف کے حوالے سے مرقاۃ شرح مشکوٰۃ(1/456)میںتینوں ہی معنیٰ ذکر کیے ہیں۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ’’یہود و نصاریٰ پر لعنت بھیجنے کا سبب یا تو یہ تھا کہ وہ اپنے انبیا کی قبروں کو تعظیماً سجدہ کیا کرتے تھے جو شرکِ جلی ہے یا پھر ان پر لعنت کا سبب یہ تھا کہ وہ نماز تو اﷲ کے لیے ہی پڑھتے،لیکن اپنے انبیا کی تعظیم اور اس میں مبالغہ کرتے ہوئے انبیا کی قبروں پر سجدے کرتے تھے یا پھر ان کی قبروں کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھتے،جو یہ شرکِ خفی ہے۔‘‘[1]
Flag Counter