Maktaba Wahhabi

199 - 699
تک محدود نہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غشی کھا کر گِر گئے،جو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ ستر کی حفاظت کے سلسلے میں ایک خصوصی انتظام کے طور پر ہوا،جبکہ یہاں معاملہ ایسا نہیں ہے،بلکہ محض رانوں سے کپڑا اُٹھ جانے یا اُٹھانے کی بات ہے۔ دوسری دلیل: ران کو ستر نہ ماننے والوں کی دوسری دلیل وہ حدیث ہے،جو صحیح مسلم،سنن بیہقی،مشکل الآثار طحاوی میں ایک طریق سے اور مسند احمد میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے،جس میں وہ بیان کرتی ہیں: {کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم مُضْطَجِعًا فِيْ بَیْتَيْ کَاشِفًا عَنْ فَخِذَیْہِ أَوْ سَاقَیْہِ} ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں رانیں کھولے یا پنڈلیاں کھولے لیٹے تھے۔‘‘ آگے وہ بیان کرتی ہیں: ’’حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اندر آنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اور اسی حال میں لیٹے رہے اور باتیں کیں۔پھر حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ آئے تو انھیں بھی اندر آنے کی اجازت دے دی،اور اسی طرح لیٹے رہے اور باتیں کیں۔پھر حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ کر بیٹھ گئے اور کپڑے سنوار لیے۔‘‘ مختصر یہ کہ جب وہ سب چلے گئے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما کی آمد پر نہ اُٹھنے اور نہ کپڑے سنوارنے کا اور جب کہ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی آمد پر اُٹھ کر بیٹھ جانے اور کپڑے سنوار لینے کا سبب دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: {أَلَا أَسْتَحْیِيْ مِنْ رَجُلٍ یَسْتَحْیِيْ مِنْہُ الْمَلَائِکَۃُ؟}[1] ’’کیا میں اس شخص سے حیا نہ کروں،جس سے اﷲ کے فرشتے بھی حیا کرتے ہیں؟‘‘ اس حدیث میں جہاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت حیا داری مذکور ہے،وہیں اس سے ران کے مقامِ ستر نہ ہونے کی دلیل بھی لی جاتی ہے۔اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے امام نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
Flag Counter