Maktaba Wahhabi

450 - 699
یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ قبرِ نبوی پر جو گنبدِ خضراء بنا ہوا ہے،وہ کوئی عہدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم یا دورِ صحابہ رضی اللہ عنہم سے نہیں،بلکہ شیخ محمد سلطان معصومی نے ’’المشاہدات المعصومیۃ عند قبر خیر البریۃ‘‘ میں لکھا ہے: ’’یہ بات ذہن میں رکھیں کہ 678ھ تک حجرئہ نبوی پر،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ مقدس ہے،کوئی گنبد نہیں تھا۔یہ تو ملک ظاہر منصور قلاوون صالحی نے 678ھ میں بنوایا تھا۔‘‘ پھر وفاء الوفاء سمہودی سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’جس طرح ولید نے نصاریٰ کے کنائس کی تقلید کرتے ہوئے مسجدِ نبوی کو مزخرف ومزین کیا تھا،ویسے ہی قلاوون نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے ناواقفیت کی بنا پر گنبد بنوایا،کیونکہ اسی نے مصر و شام میں نصاریٰ کے کنائس کو مزخرف و مزین کیا تھا۔‘‘ ایوب صبری ترکی نے کتاب ’’مرأۃ الحرمین‘‘ کی جلد دوم سے نقل کیا ہے: ’’قلاوون نے 678ھ میں گنبدِ خضراء بنوایا۔پھر 755ھ میں اس کے بیٹے الملک ناصر حسن بن محمد بن قلاوون نے اسکی تجدید اور نحاسی تزئیین کی۔‘‘ آگے شیخ معصومی لکھتے ہیں: ’’یقینا قلاوون کا یہ فعل نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح و ثابت احادیث کے قطعاً خلاف ہے،لیکن جہالت،تعظیم و محبت میں غلو اور غیروں کی تقلید بُری بلا ہیں۔‘‘[1] قبروں پر مساجد کی تعمیر کو ممنوع قرار دینے والی احادیث میں اس بات کی دلیل بھی واضح انداز میں موجود ہے کہ قبروں پر تعمیر کی گئی مساجد میں نماز پڑھنا بھی ممنوع ہے،کیونکہ قبروں پر مساجد بنانے کی ممانعت سے ان مساجد میں نماز کی ممانعت بھی لازم آتی ہے،کیونکہ وسیلے کی ممانعت سے دراصل مقصود کی ممانعت مراد ہوتی ہے اور مسجد کی تعمیر تو ایک وسیلہ ہے۔مقصود تو نماز و عبادت ہے۔قبور پر بنائی گئی مساجد میں نماز کا حکم قدرے تفصیل کے ساتھ ہم بعد میں بیان کریں گے۔ان شاء اﷲ دوسرا مفہوم ومعنیٰ: قبروں کو مساجد یا عبادت گاہیں بنانے کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ان پر یا ان کی طرف منہ کر کے
Flag Counter