Maktaba Wahhabi

357 - 699
جیسا کہ امام ابو اسحاق سبیعی نے ابو الاحوص کے طریق سے حضرت عبداﷲ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔ اس احتمال کی تائید بھی اُسی اثر سے ہوتی ہے جو تفسیر طبری کے حوالے سے ابھی ہم نے ذکر کیا ہے کہ خود ابن عباس رضی اللہ عنہما نے چہرے کا پردہ کرنے اور صرف ایک آنکھ ننگی رکھنے کو مومن عورتوں کے لیے اﷲ کا حکم قرار دیا ہے۔ 3۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی تفسیر کے بارے میں ان ہر دو احتمالات میں سے اگر کسی ایک کو بھی تسلیم نہ کیا جائے تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ ان کی یہ تفسیر حجت ہی نہیں،جسے قبول کرنا واجب ہو،کیونکہ ان کی یہ تفسیر صرف اس شکل میں واجب القبول حجت ہوتی،جب اس کا معارض و مخالف دوسرا کوئی قول نہ ہو اور جب دو صحابیوں رضی اللہ عنہما سے الگ الگ تفسیر مروی ہے تو پھر ترجیح اسے ہی دی جا سکتی ہے،جسے دوسرے خارجی دلائل قابلِ ترجیح قرار دیں اور اس مسئلے میں ایسا ہی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تفسیر مختلف ہے،انھوں نے﴿اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا﴾کی تفسیر چہرے اور ہاتھوں کے بجائے چادر اور کپڑوں سے کی ہے۔لہٰذا ان دونوں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہما کی تفسیروں میں سے جو راجح تر ہے،اس پر عمل کرنا واجب ہے اور راجح تر تفسیر حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہی کی ہے،جیسا کہ اس کی تفصیل فریقِ اول کے دلائلِ قرآنیہ میں سے دلیلِ اول کے ضمن میں ذکر کی جا چکی ہے اور انہی کی تفسیر اسلامی تعلیمات سے قریب تر ہے اور اسی میں فحاشی کا سدِ باب اور معاشرے کی اصلاح و طہارت کا راز پنہاں ہے۔ رفعِ اشکال اب رہا اس اشکال کا حل کہ اﷲ تعالیٰ نے سورت نور میں جو مومن مردوں کو حکم فرمایا ہے: ﴿قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ﴾[النور:30] ’’مومنوں سے کہہ دیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں جھکا کر رکھیں۔‘‘ تو ان الفاظ سے بلا وجہ ایک اشکال پیدا کر لیا گیا ہے کہ جب مومنوں کو نظریں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تو اس سے پتا چلتا ہے کہ عورتوں کے جسم کا کوئی نہ کوئی حصہ تو ننگا رہتا ہی ہوگا،جس سے نظریں نیچے رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔یہ دراصل بلا وجہ کا پیدا کردہ ایک اشکال ہے،ورنہ در حقیقت ان
Flag Counter