Maktaba Wahhabi

227 - 699
شرعی حیثیت دیکھیں،چنانچہ ان تینوں میں سے غالب اکثریت بریلوی حضرات کی ہے،لہٰذا پہلے بریلوی موقف دیکھیں۔ 1 بریلوی موقف: بریلوی موقف کو معلوم کرنے کے لیے جب اس مکتبِ فکر کے بانی احمد رضا خاں کی تصریحات کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ اپنی کتاب ’’احکامِ شریعت‘‘(حصہ اول مسئلہ نمبر 54)میں لکھتے ہیں: ’’اگر بہ نیتِ عاجزی ننگے سر(نماز)پڑھتے ہیں تو کوئی حرج نہیں۔‘‘[1] اسی کتاب ’’احکامِ شریعت‘‘(حصہ دو مسئلہ نمبر:39)کے جز ’’ب‘‘ میں وہ لکھتے ہیں: ’’اگر نماز کے دوران ٹوپی سر سے گر جائے تو اٹھا لینی چاہیے،یہی افضل ہے،جبکہ بار بار نہ گرے اور تذلل و انکساری کی نیت سے سر برہنہ رہنا چاہے تو(گری ہوئی ٹوپی)نہ اٹھانی چاہیے۔‘‘ بریلوی مکتبِ فکر کی دوسری کتاب ’’عرفانِ شریعت‘‘(حصہ اول مسئلہ:7)میں لکھا ہے: ’’اگر مقتدی عمامہ باندھے ہوں اور امام کے سر پر عمامہ نہ ہو تو نماز بلا تکلف درست ہوگی۔‘‘ لیجیے! بریلوی موقف خود اس مکتبِ فکر کے بانی و سرخیل کے اپنے اقوال و فتاویٰ کی روشنی میں واضح ہوگیا کہ ان کے علما کے نزدیک ننگے سر نماز ہوجاتی ہے اور یہ الگ بات ہے کہ سب سے زیادہ اسی مکتبِ فکر کے لوگ ننگے سر نماز پڑھنے والوں پر گرجتے اور برستے ہیں۔ 2 دیوبندی موقف: احناف میں بریلوی مکتبِ فکر کے بعد دوسرا مکتبِ فکر دیوبندی ہے اور ان کی متداول کتب میں بھی ننگے سر نماز کو جائز لکھا گیا ہے،مثلاً امام طحاوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’شرح معاني الآثار‘‘(1/234)میں مذکور ہے: ’’مردوں کے لیے صرف ایک ہی کپڑے میں نماز جائز ہے۔‘‘ نیز لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ،ابو یوسف اور محمد رحمہم اللہ کا بھی یہی قول ہے۔
Flag Counter