Maktaba Wahhabi

343 - 699
’’اسلام عورت پر اس بات کو حرام قرار دیتا ہے کہ وہ(گلی بازار میں)اپنے جسم کے کسی بھی حصے کو ننگا کرے۔‘‘ آگے انھوں نے عورت کے غیر مردوں کے ساتھ خلوت گزیں ہونے اور ان سے خلط ملط ہونے کو بھی حرام لکھا ہے۔[1] حسن البنا کے الفاظ بھی چہرے کے وجوبِ حجاب ہی کا پتا دیتے ہیں۔ 11۔اجماعِ امت؛ ابن المنذر رحمہ اللہ: امام ابن المنذر رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الإجماع‘‘ میں لکھا ہے: ’’تمام علماے امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ احرام کی حالت میں عورت سلا ہوا لباس اور موزے پہن سکتی ہے اور یہ کہ وہ اپنے سر اور بالوں کو ڈھانپ کر رکھے،البتہ چہرہ کھلا رہنے دے،لیکن غیر مردوں کی نظروں سے بچنے کے لیے وہ سر کے اوپر سے کوئی ہلکا سا کپڑا گرا کر چہرے کا پردہ کر لے۔‘‘[2] امام ابن المنذر رحمہ اللہ کا یہ دعواے اجماع حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی فتح الباری میں نقل کیا ہے۔[3] امام ابن المنذر کے بقول تو حالتِ احرام میں بھی چہرے کے پردے پر اجماع ہے،پھرعام حالات میں اس کو ننگا رکھنا کیسے روا ہوسکتا ہے؟ 12۔شیخ عبداﷲ بن زید آل محمود: قطر کے معروف عالم،وہاں کے شرعی کورٹ اور امورِ اسلامیہ کے ڈائریکٹر جنرل شیخ عبداﷲ بن زید آلِ محمود نے اپنے کتابچے ’’الاخلاق الحمیدہ‘‘ میں لکھا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی کتابِ عظیم قرآنِ کریم میں ہر برے کام پر سرزنش اور زجر و توبیخ کی گئی ہے،چنانچہ پردے کے سلسلے میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلِّ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَ نِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ﴾[الأحزاب:59]
Flag Counter