Maktaba Wahhabi

458 - 699
والوں پر لعنت فرمائی ہے۔ایسی مسجد میں نماز کی ممانعت بالأولیٰ ہے۔یہ ممانعت وہاں پڑھی گئی نماز کے باطل ہونے کا تقاضا کرتی ہے۔امام احمد رحمہ اللہ کا بطلانِ نماز کا فتویٰ ایسے ہی لوگوں پر محمول کیا جا سکتا ہے،اگر چہ ان کے یہاں ایسی تفصیل نہیں ہے۔ 2۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جو مقصد و ارادے اور حصولِ تبرک کے لیے اس مسجد میں نماز نہ پڑھیں،بلکہ ان کا ایسی مسجد میں نماز پڑھنا محض اتفاق ہو۔ایسے اتفاقیہ نماز پڑھنے والوں کی نماز باطل تو نہیں ہوگی،البتہ کم از کم مکروہ تو ضرور ہی ہو گی اور جمہور اہلِ علم کا یہی مسلک ہے۔[1] اسبابِ کراہت ایسی مساجد میں نماز کے مکروہ ہونے کے دو اسباب ہیں: پہلا سبب: قبروں پر تعمیر کی گئی مساجد میں نماز پڑھنے میں یہود و نصاریٰ کے فعل کے ساتھ مشابہت پائی جاتی ہے،کیونکہ وہ قبروں پر مساجد تعمیر کرتے اور انھیں عبادت گاہیں بناتے تھے،اسی فعل کی وجہ سے وہ ملعون قرار پائے،جیسا کہ احادیث گزری ہیں۔ان کے کسی ایسے فعل میں ان کی مشابہت کی جائے،جس پر وہ ملعون ٹھہرائے گئے تو وہ مشابہت والا فعل مکروہ کیوں نہ ہوگا؟ اگرچہ باطل نہ بھی شمار کیا جائے۔ دوسرا سبب: قبروں پر تعمیر کی گئی مساجد میں نماز کے مکروہ ہونے کا دوسرا سبب یہ ہے کہ اس میں ان قبروں میں مدفون لوگوں کی غیر شرعی تعظیم کا ایک ذریعہ پایا جاتا ہے،لہٰذا احتیاطاً وہاں نماز کی ممانعت ہوگی،خصوصاً جب کہ قبروں پر بنائی گئی مساجد کے عقائدی مفاسد اہلِ نظر سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اہلِ علم نے ایسی مساجد میں نماز کی کراہت کے ان دونوں اسباب کا تذکرہ کیا ہے۔چنانچہ علماے احناف میں سے علامہ ابن الملک سے ملا علی قاری نے ’’المرقاۃ شرح المشکاۃ‘‘(1/470)میں نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’إِنَّمَا حَرَّمَ اتِّخَاذَ الْمَسَاجِدِ عَلَیْھَا لِأَنَّ فِي الصَّلَاۃِ فِیْھَا اِسْتِنَاناً بِسُنَّۃِ الْیَھُوْدِ‘‘ ’’قبروں پر مساجد کی تعمیر اس لیے حرام کی گئی ہے،کیوںکہ اس میں یہودیوں کے فعل کے
Flag Counter