Maktaba Wahhabi

717 - 699
اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ اگر کسی کمپنی کی رہایشی کالونی میں عارضی طور پر کوئی مسجد بنائی گئی ہو اور وہ ایک عرصہ تک رہے اور اس کی ضروریات کے لیے کچھ لوگ مل کر ایک فنڈ بنائیں،جس سے اس مسجد کی ضرورتیں پوری کی جاتی ہیں۔پھر کسی وقت وہاں سے کمپنی کا کیمپ ختم ہوجائے تو ظاہر ہے کہ وہ مسجد وہاں نہیں رہے گی،بلکہ کمپنی کے منتقل ہوتے ہی وہ متروک ہوجائے گی اور اس کا سامان بھی کسی دوسری مسجد کو منتقل ہوجائے گا۔زمین پہلے ہی وقف نہیں بلکہ وہاں مسجد مؤقت تھی۔اور اس کے لیے جو فنڈ بنایا گیا تھا،اس میں جتنا پیسا باقی ہو،اسے کسی دوسری مسجد پر صَرف کر دیا جائے گا،جو قریب ہو۔ کرائے کی جگہ کو مسجد بنانا: کمپنیوں کی نقل مکانی کا یہ سلسلہ چونکہ عام ہے اور فنڈ یا بجٹ اور ایسی مؤقت مساجد کے فاضل سامان کا مسئلہ پیدا ہوتا ہی رہتا ہے،لہٰذا فقہا کی بیان کردہ ان تفصیلات سے استفادہ کیاجاسکتا ہے۔یہ تو کسی کی جگہ پر زمین کے مالک کی رضا و مرضی سے مؤقت مسجد کی بات ہے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے سوا تمام ائمہ رحمہ اللہ کے نزدیک تو یہ بھی جائز ہے کہ کوئی مکان کرائے پر لیا جائے اور اسے نماز پڑھنے کے لیے مسجد کے طور پر استعمال کیاجا ئے۔علامہ زرکشی رحمہ اللہ نے اس کے جواز کی تائید کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’کرائے پر لی گئی اس جگہ سے یہ منفعت حاصل کرنا اور فائدہ اٹھانا ایک مقصود ومطلوب امر ہے۔جب اپنے سونے اور سامان وغیرہ رکھنے کے لیے کرائے پر گھر لیا جاسکتا ہے تو(کسی ایسی جگہ جہاں مسجد نہ ہو اور بنانے کی اجازت نہ ہویا بنانے کی طاقت نہ ہوتو)وہاں نماز کے لیے کوئی گھر کرائے پر کیوں نہیں لیا جاسکتا؟‘‘[1] قارئینِ کرام! محدّثین و فقہا اور مصلحین علما نے آداب واحکام مساجد کے سلسلے میں بہت تفصیلات بیان کی ہیں۔بعض اہلِ علم نے تو اس پر مستقل کتابیں بھی لکھی ہیں،جیسے ’’إعلام الساجد‘‘ علامہ بدر الدین زرکشی رحمہ اللہ اور ’’إصلاح المساجد‘‘ علامہ محمد جمال الدین قاسمی ہیں۔ ان میں مسجدِ حرام مکہ مکرمہ،مسجدِ نبوی مدینہ منورہ اور مسجدِ اقصیٰ بیت المقدس کے آداب واحکام
Flag Counter