Maktaba Wahhabi

537 - 699
خاتون کی کنیت ام محجن ہو گی۔[1] صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیے بغیر اس عورت کو دفن کر دینے کا سبب صحیح ابن خزیمہ میں،ایسے ہی سنن کبریٰ بیہقی میں مذکور ہے کہ اس کی وفات رات کے وقت ہوئی: ’’فَکَرِھْنَا أَنْ نُّوْقِظَکَ‘‘’’ہمیں یہ اچھا نہیں لگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگا کر(بے آرام)کریں۔‘‘ صحیح بخاری میں کتاب الجنائز میں جو حدیث وارد کی گئی ہے،اس میں ہے: {فَحَقَرُوْا شَأْنَہٗ}’’صحابہ رضی اللہ عنہم نے اسے معمولی سمجھتے ہوئے ایسا کیا۔‘‘ بہر حال ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مسجد کی صفائی ستھرائی کی بہت فضیلت و اہمیت ہے،اس کا اندازہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال کرنے اور پھر قبر پر جا کر صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ اس کی نمازِ جنازہ کا اہتمام کرنے اور اس کے لیے دعاے مغفرت و رحمت سے ہوتا ہے۔[2] مسجد کے لیے خادم: امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ مسئلہ بھی اخذ کیا ہے کہ مسجد کے لیے صفائی ستھرائی کرنے کے لیے کسی خادم کو مخصوص کیا جا سکتا ہے،کیونکہ ان حادیث میں مذکور ایک نیک خاتون نے اپنے آپ کو مسجدِ نبوی کی اس خدمت کے لیے وقف کیا ہوا تھا اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس خدمت باسعادت پر برقرار رہنے دیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے برقرار رہنے دینا ہی دراصل اس مذکورہ مسئلے کی دلیل ہے۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس دلیل کی تائید قرآنِ کریم کے ان الفاظ سے بھی حاصل کی ہے،جس میں ارشادِ الٰہی ہے کہ عمران کی بیوی(حنّہ بنت فاقوذام)نے عرض کی: ﴿رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا﴾[آل عمران:35] ’’اے میرے پروردگار! جو میرے پیٹ میں ہے،میں اسے آزاد کر کے تیری نذر کر چکی ہوں۔‘‘ صحیح بخاری کے ایک ترجمۃ الباب میں تعلیقاً اور تفسیر ابن ابی حاتم میں موصولاً ترجمان القرآن حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی تفسیر بھی مروی ہے،جس میں وہ بیان فرماتے ہیں: ﴿رَبِّ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ مَا فِیْ بَطْنِیْ مُحَرَّرًا﴾ سے مراد یہ ہے:
Flag Counter