Maktaba Wahhabi

457 - 699
’’ہمارے علما نے کہا ہے کہ یہ مسلمانوں پر حرام ہے کہ وہ انبیا اور علما کی قبروں کو مساجد بنالیں۔‘‘[1] ایسے ہی علماے حنابلہ بھی اس بات کے قائل ہیں کہ قبروں پر مساجد تعمیر کرنا حرام ہے اور ایسی مساجد میں نماز جائز نہیں۔تفصیل کے لیے ’’شرح منتہیٰ الارادات‘‘(1/353)’’زاد العاد‘‘(3/570-572)’’فتاوٰی شیخ الإسلام ابن تیمیۃ‘‘(22/194-27/140-37/55)دیکھیں:دار الافتاء مصر نے بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے اس فتوے کو بنیاد بنا کر مسجد میں تدفین کے عدمِ جواز کا فتویٰ صادر کیا ہے،جو ’’مجلۃ الأزہر‘‘(جلد 11 ص:01-503)میں شائع کیا گیا تھا۔اسی مجلے کی 1930ء کی جلد(ص:350-364)میں ایک دوسرا مقالہ شائع کیا گیا تھا،جو قبروں پر مطلق کوئی چیز تعمیر کرنے کے حرام ہونے کے بارے میں تھا۔[2] اس ساری تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ تمام مذاہب کے معتبر علما مذکورہ احادیث کی بنا پر اس بات کے قائل ہیں کہ قبروں پر مساجد تعمیر کرنا حرام ہے اور ایسی مساجد میں نماز جائز نہیں۔ قبروں پر بنائی گئی مساجد میں نماز کا باطل یا مکروہ ہونا ایسی مساجد میں نماز کے عدمِ جواز کی تھوڑی سے وضاحت بھی کرتے جائیں،چنانچہ جیسا کہ ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ قبروں پر مساجد تعمیر کرنے کی ممانعت سے ان مساجد میں نماز کی ممانعت بھی لازم آتی ہے،کیونکہ وسیلے سے ممانعت،مقصود سے بالاولی ممانعت کی متقاضی ہوتی ہے۔ایسی مساجد میں نماز کی ممانعت کے بارے میں امام احمد رحمہ اللہ اور بعض دیگر اساطینِ علم کا قول تو یہ ہے کہ ان میں نماز پڑھنا باطل ہے اور نمازہوگی ہی نہیں۔اگر اس قول کو تھوڑا سا سخت شمار کیا جائے تو پھر اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں کہ قبروں پر بنائی گئی مساجد میں نماز پڑھنے والے نمازیوں کو دو حصوں یا دو قسموں میں تقسیم کیا جائے: 1۔ پہلی قسم کے لوگ تو وہ ہوں گے،جو قصد و ارادے کے ساتھ اور حصولِ تبرک کی نیت سے کسی قبر پر بنی ہوئی مسجد میں نماز پڑھیں،جیسا کہ کثیر تعداد میں لوگ کرتے ہیں۔ایسے لوگوں کی نماز تو باطل ہو گی،کیونکہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر مساجد کی تعمیر سے منع فرمایا ہے اور ایسا کرنے
Flag Counter