Maktaba Wahhabi

534 - 699
2۔ دوسری روایت کی رو سے خود کھینچ کر اتار دیا۔ 3۔ تیسری وہ حدیث ہے،جس میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ابو جہم کی چادر واپس لوٹانا مذکور ہے،جس میں بیل بوٹے یا دھاریاں تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہتے ہوئے وہ چادر لوٹا دی کہ اس نے مجھے نماز میں بے دھیان کر دیا ہے۔ ان تینوں احادیث سے اور خصوصاً ان میں سے جس میں یہ مذکور ہے کہ نماز میں اس پردے کی تصویریں میرے سامنے آتی رہی ہیں،یہ دلیل لی جا سکتی ہے کہ یہ ممانعت نماز میں التفات کے انسداد کے لیے ہے،عیش و عشرت ترک کرنے میں سلف صالحین کے اتباع کی نظر سے نہیں۔ مساجد میں نقش و نگار کرنے کی ممانعت کے دلائل تو ذکر کر دیے گئے ہیں اور یہی قول قوی اور راجح بھی ہے،جبکہ جواز کے قائلین نے بھی بعض دلائل پیش کیے ہیں،لیکن وہ بڑے بے جان سے ہیں،حتیٰ کہ امام شوکانی رحمہ اللہ نے تو ان کے دلائل کے بارے میں نیل الاوطار میں یہ تک کہہ دیا ہے کہ مویشیوں کی منڈی میں تو شاید ایسے دلائل کوئی کام دے جائیں،لیکن علم کے میدان میں وہ کسی کام کے نہیں ہیں۔[1] جب ان کی پوزیشن یہ ہے تو پھر انھیں ذکر کر کے بات کو طول کیوں دیا جائے! ہاں ایک بات جو یہاں کہنا ضروری ہے اور اس سے ویسے بھی مانعین اور قائلین دونوں کے مابین کچھ تقریب و موافقت اور مطابقت پیدا ہوجاتی ہے کہ مسجد کو فخر و مباہات کا ذریعہ بنائے بغیر حسبِ ضرورت جتنی بڑی مسجد بھی بنانا چاہیں بنا لیں،دورِ حاضر کی عمدہ تعمیرات کے انداز سے خوبصورت بھی بنالیں،تاکہ بڑی بڑی عمدہ قسم کی بنی ہوئی عمارتوں کے مقابلے میں وہ مساجد کچھ کمتر محسوس نہ ہوں،البتہ ان کی محرابوں یا دیواروں کو صرف ایک ہی رنگ کریں،جو سفید یا کریم ہو اور ان پر اور چھتوں پر کہیں بھی بیل بوٹے بنائیں نہ گُل کاریاں کریں،بلکہ زرکاری و گل کاری کے بغیر ہی سادہ انداز سے رہنے دیں،اس طرح مسجد خوبصورت بھی بنے گی،سادہ بھی ہوگی اور ممانعت کی حدود سے بھی نکل جائے گی،اس سلسلے میں خلیجی ممالک کی مساجد پر ہمیں بہت اطمینان ہے۔کثر اللّٰه أمثالھا في بلادنا۔آمین مساجد کی نظافت اور صفائی و ستھرائی: حسبِ ضرورت مسجد بنائی جائے،چاہے کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو،اسے سفید یا کریم رنگ کیا
Flag Counter