Maktaba Wahhabi

604 - 699
وضو کر کے مسجد کے ہال میں داخل ہوجائیں اور دوسرے لوگوں کو مچھلی کی بو سے پریشان کریں۔ مچھلی بلاشبہہ پاک و حلال ہے،اس کے کسی کپڑے کو لگ جانے سے وہ نجس نہیں ہوجاتا،لیکن اس پیشے سے منسلک لوگوں کو اپنے دوسرے بھائیوں کی خاطر ہی سہی،مسجد میں ذرا ڈھنگ سے آنا چاہیے۔اگر بار بار وہ نہا نہیں سکتے تو جسم کے مچھلی لگنے والے اعضا کو تو اچھی طرح دھو سکتے ہیں۔ 5۔ ایسے ہی کپڑوں کو بار بار دھونا ممکن نہ ہو تو کپڑوں کا ایک جوڑا نماز کے لیے خاص تو کیا ہی جاسکتا ہے کہ جب نماز کا ارادہ ہو تو ضروری اعضاے جسم کو دھو کر نماز والے کپڑے پہن لیں اور وضو کر کے خوشبو وغیرہ لگا کر مسجد میں چلے جائیں،تاکہ اگر کلی طور پر نہیں تو کم از کم خاصی حد تک تو بو زائل ہو جائے اور لوگ اذیت سے بچ جائیں۔ اگر اس قسم کی معمولی تدابیر اختیار کی جائیں تو یقینا بو کا سد باب ہو سکتا ہے اور کسی کو ضرورت ہی نہیں رہتی کہ ان کے بارے میں لہسن کھانے والوں کا حکم سوچتا پھرے۔اگر بے پروائی ہی کرنا ہو تو وہ صرف عام حالات میں ہو تو ہو،مسجد میں داخل ہونے کے معاملے میں ہرگز نہیں ہونی چاہیے۔ پسینے سے عدمِ احتراز: یہ امور تو ایسے ہیں جن میں کسی نہ کسی حد تک آدمی کو معذور تصور کرنا پڑتا ہے،مثلاً کوڑھی کا مرض قدرتی امر ہے،ماہی گیری کا پیشہ اس کی مجبوری ہے،بدبو دار زخم اور منہ یا بغلوں کی بو والے امراض میں مبتلا لوگ بھی اس سلسلے میں لاچار ہیں،صرف بے پروائی ترک کر کے کچھ اہتمام کرتے رہیں تو وہ دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے بچ سکتے ہیں،لیکن اس سب کچھ کے باوجود بھی وہ کسی درجہ معذور مانے جا سکتے ہیں،جبکہ ہمارے ہی بھائیوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کسی بھی درجے میں مجبور و لاچار نہیں ہوتے،انھیں کسی قسم کا کوئی شرعی عذر بھی نہیں ہوتا،اس کے باوجود وہ بے پروائی و لا ابالی پن میں یا پھر اپنی عادت سے مجبور ہو کر مساجد میں دوسروں کے لیے اذیت کا باعث بنتے ہیں۔ہماری مراد ان لوگوں سے ہے،جو اپنے جسموں سے پسینے کی بدبو زائل کرنے کی کوئی تدابیر اختیار نہیں کرتے۔یہ تو مانا جا سکتا ہے کہ وہ محنت کش ہوتے ہیں،محنت و مشقت کرنے سے انھیں پسینہ آتا ہے،اس حد تک تو کوئی حرج نہیں،محنت و حرکت تو باعثِ برکت ہے،لیکن یہ کہاں ضروری ہے کہ محنت والے کپڑوں کو آٹھ آٹھ دن بدلا ہی نہ جائے اور بدبو کو ان میں خوب اچھی طرح پاؤں جمانے دیے جائیں؟
Flag Counter