Maktaba Wahhabi

249 - 699
بیٹھے ہوں تو بھی اول الذکر لوگوں کی نیت کر کے عمومی الفاظ کے ساتھ سلام کہنا چاہیے۔[1] سلام کی فضیلت اور متعلقہ اس سے متعلق امور تو ہم نے محض موانع کا ذکر کرنے کی مناسبت سے ذکر کر دیے ہیں،ورنہ سلام سے متعلق احکام و مسائل تو بہت زیادہ ہیں،لیکن سرِدست وہ ہمارے موضوع کا حصہ نہیں ہیں،لہٰذا یہاں ہم ان سے صرفِ نظر کر رہے ہیں،کبھی اﷲ تعالیٰ نے موقع بخشا اور توفیق سے نوازا تو ان مسائل کی تفصیل بھی ذکر کر دیں گے۔[2] ان شاء اﷲ تعالیٰ ٹوپی اور عمامہ یا کوئی ایک: یہاں ایک اور بات بھی آپ کے گوش گزار کر دیں کہ بعض لوگ عام حالات میں تو کیا خاص دورانِ نماز بھی عمامہ یا ٹوپی نہیں رکھتے،بلکہ ایسے لوگوں کی کثرت ہو رہی ہے،جبکہ ادھر کچھ لوگ ہیں تو وہ بال کی کھال اتارنے کے چکر میں رہتے ہیں اور یہ پوچھتے ہیں کہ نیچے ٹوپی اور اس کے اوپر عمامہ یا پگڑی دونوں بیک وقت ضروری ہیں یا دونوں یعنی عمامہ و ٹوپی میں سے کوئی ایک چیز بھی کافی ہے اور کیا نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے کبھی بغیر عمامہ کے ٹوپی پہنی ہے یا نہیں؟ عام لوگ تو عموماً صرف ٹوپی پر اکتفا کرتے ہیں،لیکن ان کا کہنا ہوتا ہے کہ ٹوپی کے اوپر لازماً عمامہ باندھو،کیونکہ صرف ٹوپی پہننا مکروہ ہے،ان کا استدلال رکانہ بن یزید الہاشمی والی سنن ابو داود و ترمذی اور بیہقی کی اس مرفوع حدیث سے ہوتا ہے،جس میں بیان ہے: {إِنَّ فَرْقَ مَا بَیْنَنَا وَبَیْنَ الْمُشْرِکِیْنَ اَلْعَمَائِمُ وَالْقَلَانِسُ}[3] ’’ہمارے اور مشرکین کے مابین فرق یہ ہے کہ ہم ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں۔‘‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نماز میں اور نماز سے باہر ہمیشہ یا کبھی صرف ٹوپی کا استعمال بلاشبہہ جائز و مباح ہے،اس پر پگڑی باندھنا نہ فرض،نہ واجب ہے اور نہ سنت موکدہ ہی۔ امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو حسن غریب اور اس کی سند کو ’’لیس بالقائم‘‘ قرار دیا ہے اور شیخ البانی نے ان کی تصدیق کی ہے،نیز ماہنامہ ’’محدّث‘‘ دہلی(جلد:10-شمارہ:3)میں صادر شدہ
Flag Counter