Maktaba Wahhabi

662 - 699
حدیث سے استدلال کیا جاتا ہے،جس میں مذکور ہے کہ حضرت کعب بن مالک اور حضرت ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہما کے مابین کوئی قرض کا لین دین تھا۔حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے تقاضا کیا تو اس معاملے میں ان کی آوازیں بلند ہوگئیں،حتیٰ کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر میں ان کی آوازیں سنیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی طرف کھلنے والے دروازے سے پردہ اٹھایا اور حضرت کعب رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: ’’تم اپنا کچھ یعنی آدھا قرض معاف کردو۔انھوں نے فوراً تعمیل کی اور دوسرے صحابی رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ اب تم بقیہ قرض ادا کر دو۔‘‘[1] اس حدیث سے آواز بلند کرنے کا جواز اخذ کیا جاتا ہے،جب کہ یہ آواز بلند بھی چیخ وچنگاڑ اور نعروں کی شکل میں نہ ہو۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے مسجد میں جو علم کے لیے آواز بلند کرنے کو جائز قرار دیا ہے تو اسے اسی پر محمول کیا جائے گا کہ اگر تعلیم کے لیے آواز بلند ہو تو جائز ورنہ ناجائز۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کے ’’باب رفع الصوت في المسجد‘‘ میں ان دونوں حدیثوں کو وارد کر کے اس فرق کی طرف اشارہ فرما دیا ہے۔لہٰذا ادب واحترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسے ہر فعل سے پرہیز کرنا چاہیے،جو مسجد کی بے ادبی و بے حرمتی کا باعث ہو۔[2] مسجد میں اپنے لیے کوئی جگہ مخصوص کر لینا: آداب و احکامِ مسجد کے سلسلہ میں ایک اور بات بھی ذکر کرتے جائیں کہ مسجد کے بعض لوگ مسجد میں اپنے لیے ایک جگہ یا گوشہ مخصوص کر لیتے ہیں۔مثلاً امام کے پیچھے،منبر کے بازو میں،کسی اگلے یا پچھلے اور دائیں یا بائیں کونے میں اور اس جگہ کے سوا کسی دوسری جگہ میں انھیں عبادت یا قیام اچھا ہی نہیں لگتا،حتیٰ کہ اگر کوئی دوسرا آدمی لاعلمی کی وجہ سے اس مخصوص جگہ پر آ بیٹھے تو وہ اسے اُٹھنے پر مجبور کردیتے ہیں اور اگر کہیں کوئی دوسرا پاؤں جما چکا ہو اور معمولی لے دے پر بھی نہ اُٹھے تو یہ صاحب لا حول ولا قوۃ الا باللّٰہ پڑھتے اور بڑ بڑاتے ہوئے وہاں سے کسی دوسری جگہ کی طرف اس طرح جلے کٹے ہوئے رخ کرتے ہیں کہ دوسروں کو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی ’’حادثہ‘‘ رونما ہو گیا ہے۔
Flag Counter