Maktaba Wahhabi

324 - 699
مروی ہے،جس میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ’’لَمَّا انْقَضَتْ عِدَّتِيْ مِنْ أَبِيْ سَلَمَۃَ أَتَانِيْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَکَلَّمَنِيْ بَیْنِيْ وَبَیْنَہٗ حِجَابٌ فَخَطَبَ إِلَيَّ نَفْسِيْ۔۔۔الخ‘‘[1] ’’جب میرے شوہر ابو سلمہ(رضی اللہ عنہ)سے میری عدت پوری ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے یہاں تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے بات کی،جبکہ میرے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین حجاب(پردہ)تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پیغامِ نکاح دیا۔‘‘ اس حدیث کی دلالت بھی واضح ہے۔ چودھویں حدیث: اس عہدِ زریں میں پردے کے عام مروج ہونے کا پتا وہ حدیث بھی دیتی ہے جو سنن ابو داود،نسائی،صحیح ابن حبان،مستدرک حاکم اور مسند احمد میں حضرت عبداﷲ بن عَمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں ایک شخص کو دفن کر کے آئے اور واپسی پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے کے پاس پہنچے تو(کیا دیکھتے ہیں): ’’إِذْ ھُوَ بِإِمْرَأَۃٍ لَا نَظُنُّہُ عَرَفھَا‘‘ ’’ایک عورت جسے ہمارے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہچانا نہیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑی تھی۔‘‘ لیکن پھر(جب کچھ پہچان ہوئی تو)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے فاطمہ! کہاں سے آئی ہو؟ تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:میں میت کے سوگواروں کے پاس سے آئی ہوں،وہاں میں نے میت کے حق میں دعاے مغفرت اور اس کے پسماندگان سے تعزیت کی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: {فَلَعَلَّکِ بَلَغْتِ مَعَھُمُ الْکُدَیَّ}’’شاید تم ان کے ساتھ کُدیَّ قبرستان بھی گئی ہو۔‘‘ تو انھوں نے عرض کی: ’مَعَاذَ اللّٰہِ،أَنْ أَبْلُغَ مَعَھُمُ الْکُدَيَّ،وَقَدْ سَمِعْتُکَ تَذْکُرُ فِیْھَا مَا تَذْکُرْ‘‘[2]
Flag Counter